‌صحيح البخاري - حدیث 1517

كِتَابُ الحَجِّ بَابُ الحَجِّ عَلَى الرَّحْلِ صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ حَدَّثَنَا عَزْرَةُ بْنُ ثَابِتٍ عَنْ ثُمَامَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَنَسٍ قَالَ حَجَّ أَنَسٌ عَلَى رَحْلٍ وَلَمْ يَكُنْ شَحِيحًا وَحَدَّثَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَجَّ عَلَى رَحْلٍ وَكَانَتْ زَامِلَتَهُ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 1517

کتاب: حج کے مسائل کا بیان باب: پالان پر سوار ہوکر حج کرنا محمد بن ابی بکر نے بیان کیا کہ ہم سے زید بن زریع نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عزرہ بن ثابت نے بیان کیا، ان سے ثمامہ بن عبداللہ بن انس نے بیان کیا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ ایک پالان پر حج کے لئے تشریف لے گئے اور آپ بخیل نہیں تھے۔ آپ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی پالان پر حج کے لئے تشریف لے گئے تھے، اسی پر آپ کا اسباب بھی لدا ہوا تھا۔
تشریح : مطلب یہ ہے کہ حج میں تکلف کرنا اور آرام کی سواری ڈھونڈناسنت کے خلاف ہے۔ سادے پالان پر چڑھنا کافی ہے۔ شغدف اور محمل اور عمدہ کجاوے اور گدے اور تکیے ان چیزوں کی ضرورت نہیں۔ عبادت میں جس قدر مشقت ہو اتنا ہی زیادہ ثواب ہے۔ ( وحیدی ) یہ باتیں آج کے سفر حج میں خواب وخیال بن کر رہ گئی ہیں۔ اب ہر جگہ موٹرکار، ہوائی جہاز دوڑتے پھر رہے ہیں۔حج کا مبارک سفر بھی ریل، دخانی جہاز، موٹر کار اور ہوائی جہازوں سے ہورہا ہے۔ پھر زیادہ سے زیادہ آرام ہر ہر قدم پر موجود ہے۔ ان تکلّفات کے ساتھ حج اس حدیث کی تصدیق ہے جس میں کہا گیا ہے کہ آخرزمانہ میں سفر حج بھی ایک تفریح کا ذریعہ بن جائے گا۔ لیکن سنت کے شیدائی ان حالات میں بھی چاہیں تو سادگی کے ساتھ یہ مبارک سفر کرتے ہوئے قدم قدم پر خدا ترسی سنت شعاری کا ثبوت دے سکتے ہیں۔ مکہ شریف سے پیدل چلنے کی اجازت ہے۔ حکومت مجبور نہیں کرتی کہ ہر شخص موٹر ہی کا سفر کرے مگر آرام طلبی کی دنیا میں یہ سب باتیں دقیانوسی سمجھی جانے لگی۔ بہرحال حقیقت ہے کہ سفر حج جہاد سے کم نہیں ہے بشرطیکہ حقیقی حج نصیب ہو۔ لفظ زاملہ ایسے اونٹ پر بولا جاتا جو حالت سفر میں علیحدہ سامان اسباب اور کھانے پینے کی اشیاءاٹھانے کے لئے استعمال میں آتا تھا، یہاں راوی کا مقصد یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سفر مبارک اس قدر سادگی سے کیا کہ ایک ہی اونٹ سے سواری اور سامان اٹھانا ہر دو کام لے لئے گئے مطلب یہ ہے کہ حج میں تکلف کرنا اور آرام کی سواری ڈھونڈناسنت کے خلاف ہے۔ سادے پالان پر چڑھنا کافی ہے۔ شغدف اور محمل اور عمدہ کجاوے اور گدے اور تکیے ان چیزوں کی ضرورت نہیں۔ عبادت میں جس قدر مشقت ہو اتنا ہی زیادہ ثواب ہے۔ ( وحیدی ) یہ باتیں آج کے سفر حج میں خواب وخیال بن کر رہ گئی ہیں۔ اب ہر جگہ موٹرکار، ہوائی جہاز دوڑتے پھر رہے ہیں۔حج کا مبارک سفر بھی ریل، دخانی جہاز، موٹر کار اور ہوائی جہازوں سے ہورہا ہے۔ پھر زیادہ سے زیادہ آرام ہر ہر قدم پر موجود ہے۔ ان تکلّفات کے ساتھ حج اس حدیث کی تصدیق ہے جس میں کہا گیا ہے کہ آخرزمانہ میں سفر حج بھی ایک تفریح کا ذریعہ بن جائے گا۔ لیکن سنت کے شیدائی ان حالات میں بھی چاہیں تو سادگی کے ساتھ یہ مبارک سفر کرتے ہوئے قدم قدم پر خدا ترسی سنت شعاری کا ثبوت دے سکتے ہیں۔ مکہ شریف سے پیدل چلنے کی اجازت ہے۔ حکومت مجبور نہیں کرتی کہ ہر شخص موٹر ہی کا سفر کرے مگر آرام طلبی کی دنیا میں یہ سب باتیں دقیانوسی سمجھی جانے لگی۔ بہرحال حقیقت ہے کہ سفر حج جہاد سے کم نہیں ہے بشرطیکہ حقیقی حج نصیب ہو۔ لفظ زاملہ ایسے اونٹ پر بولا جاتا جو حالت سفر میں علیحدہ سامان اسباب اور کھانے پینے کی اشیاءاٹھانے کے لئے استعمال میں آتا تھا، یہاں راوی کا مقصد یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سفر مبارک اس قدر سادگی سے کیا کہ ایک ہی اونٹ سے سواری اور سامان اٹھانا ہر دو کام لے لئے گئے