كِتَابُ الحَجِّ بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَى كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ لِيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ صحيح حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا الوَلِيدُ، حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، سَمِعَ عَطَاءً، يُحَدِّثُ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا «أَنَّ إِهْلاَلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ ذِيالحُلَيْفَةِ حِينَ اسْتَوَتْ بِهِ رَاحِلَتُهُ» رَوَاهُ أَنَسٌ، وَابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ يعنى حديث ابراهيم بن موسىٰ
کتاب: حج کے مسائل کا بیان
باب: اللہ تعالٰی کا فرمان مبارک
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں ولید بن مسلم نے خبردی، کہا کہ ہم سے امام اوزاعی نے بیان کیا، انہوں نے عطاءبن ابی رباح سے سنا، وہ جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما سے بیان کرتے تھے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ذوالحلیفہ سے احرام باندھا جب سواری آپ کو لے کر سیدھی کھڑی ہوگئی۔ ابراہیم بن موسیٰ کی یہ حدیث ابن عباس اور انس رضی اللہ عنہم سے بھی مروی ہے۔
تشریح :
امام بخاری کی غرض ان حدیثوں کے لانے سے یہ ہے کہ حج پاپیادہ اور سوار ہوکر دونوں طرح درست ہے۔ بعضوں نے کہا ان لوگوں پر رد ہے جو کہتے ہیں کہ حج پاپیادہ افضل ہے، اگر ایسا ہوتا تو آپ بھی پاپیادہ حج کرتے مگر آپ نے اونٹنی پر سوار ہوکر حج کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سب سے افضل ہے۔ ( وحیدی ) اونٹ کی جگہ آج کل موٹرکاروں نے لے لی ہے اور اب حج بے حد آرام دہ ہوگیا ہے۔
امام بخاری کی غرض ان حدیثوں کے لانے سے یہ ہے کہ حج پاپیادہ اور سوار ہوکر دونوں طرح درست ہے۔ بعضوں نے کہا ان لوگوں پر رد ہے جو کہتے ہیں کہ حج پاپیادہ افضل ہے، اگر ایسا ہوتا تو آپ بھی پاپیادہ حج کرتے مگر آپ نے اونٹنی پر سوار ہوکر حج کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سب سے افضل ہے۔ ( وحیدی ) اونٹ کی جگہ آج کل موٹرکاروں نے لے لی ہے اور اب حج بے حد آرام دہ ہوگیا ہے۔