‌صحيح البخاري - حدیث 1513

كِتَابُ الحَجِّ بَابُ وُجُوبِ الحَجِّ وَفَضْلِهِ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ كَانَ الْفَضْلُ رَدِيفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَاءَتْ امْرَأَةٌ مِنْ خَشْعَمَ فَجَعَلَ الْفَضْلُ يَنْظُرُ إِلَيْهَا وَتَنْظُرُ إِلَيْهِ وَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْرِفُ وَجْهَ الْفَضْلِ إِلَى الشِّقِّ الْآخَرِ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ فَرِيضَةَ اللَّهِ عَلَى عِبَادِهِ فِي الْحَجِّ أَدْرَكَتْ أَبِي شَيْخًا كَبِيرًا لَا يَثْبُتُ عَلَى الرَّاحِلَةِ أَفَأَحُجُّ عَنْهُ قَالَ نَعَمْ وَذَلِكَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 1513

کتاب: حج کے مسائل کا بیان باب: حج کی فرضیت اور فضیلت ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے خبر دی انھیں ابن شہاب نے، انہیں سلیمان بن یسارنے، اور ان سے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ فضل بن عباس ( حجۃ الوداع میں ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سواری کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے کہ قبیلہ خثعم کی ایک خوبصورت عورت آئی۔ فضل اس کو دیکھنے لگے وہ بھی انہیں دیکھ رہی تھی۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فضل رضی اللہ عنہ کا چہرہ بار بار دوسری طرف موڑ دیناچاہتے تھے۔ اس عورت نے کہا یا رسول اللہ ! اللہ کا فریضہ حج میرے والد کے لئے ادا کرنا ضروری ہوگیا ہے۔ لیکن وہ بہت بوڑھے ہیںاونٹنی پر بیٹھ نہیں سکتے۔ کیا میں ان کی طرف سے حج ( بدل ) کرسکتی ہوں؟ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں۔ یہ حجتہ الوداع کا واقعہ تھا۔
تشریح : اس حدیث سے یہ نکلا کہ نیابتا دو سرے کی طرف سے حج کرنا درست ہے۔ مگر وہ شخص دوسرے کی طرف سے حج کرسکتاہے جو اپنا فرض حج ادا کرچکا ہوا۔ اور حنفیہ کے نزدیک مطلقاً درست ہے اور ان کے مذہب کو وہ حدیث رد کرتی ہے جس کو ابن خزیمہ اور اصحاب سنن نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نکالا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو شبرمہ کی طرف سے لبیک پکار تے ہوئے سنا، فرمایا کہ تو اپنی طرف سے حج کرچکا ہے؟ اس نے کہا نہیں۔ آپ نے فرمایا تو پہلے اپنی طرف حج کر پھر شبرمہ کی طرف سے کرلو۔ اسی طرح کسی شخص کے مرجانے کے بعد بھی اس کی طرف حج درست ہے۔بشرطیکہ وہ وصیت کر گیا ہو۔ اور بعضوں نے ماں باپ کی طرف سے بلا وصیت بھی حج درست رکھا ہے۔ ( وحیدی ) حج کی ایک قسم حج بدل بھی ہے۔ جو کسی معذور یا متوفی کی طرف سے نیابتا کیا جاتا ہے۔ ا س کی نیت کرتے وقت لبیک کے ساتھ جس کی طرف سے حج کے لئے آیا ہے اس کا نام لینا چاہئے۔ مثلاً ایک شخص زید کی طرف سے حج کے لئے گیا تو وہ یوں پکارے لَبَّیکَ عَن زَیدٍ نِیَابَۃً کسی معذور زندے کی طرف سے حج کرنا جائز ہے۔اسی طرح کسی مرے ہوئے کی طرف سے بھی حج بدل کرایا جاسکتا ہے۔ ایک صحابی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا تھا کہ مریا باپ بہت ہی بوڑھا ہوگیا ہے۔ وہ سواری پر بھی چلنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ آپ اجازت دیں تو میں ان کی طرف سے حج اداکرلوں۔ آپ نے فرمایا۔ ہاں کرلو ( ابن ماجہ ) مگر اس کے لئے یہ ضر وری ہے کہ جس شخص سے حج بدل کرایا جائے وہ پہلے خود اپنا حج ادا کرچکا ہو۔جیسا کہ مندرجہ ذیل حدیث سے ظاہر ہے۔ عن ابن عباس ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سمع رجلا یقول لبیک عن شبرمۃ فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من شبرمۃ قال قریب لی قال ہل حججت قط قال لا قال فاجعل ہذا عن نفسک ثم حج عن شبرمۃ رواہ ابن ماجۃ یعنی ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو سنا وہ لبیک پکارتے وقت کسی شخص شبرمہ نامی کی طرف سے لبیک پکاررہا ہے ہے۔ آپ نے دریافت کیا کہ بھئی یہ شبرمہ کون ہے؟ اس نے کہا کہ شبرمہ میرا ایک قریبی ہے۔ آپ نے پوچھا تو نے کبھی اپنا حج ادا کیا ہے۔ اس نے کہا نہیں۔آپ نے فرمایا، اپنے نفس کی طرف سے حج ادا کر پھر شبرمہ کی طرف سے کرنا۔ اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ حج بدل وہی شخص کرسکتا ہے جوپہلے اپنا حج کرچکا ہو۔ بہت سے ائمہ اور امام شافعی رحمہ اللہ وامام احمد رحمہ اللہ کا یہی مذہب ہے۔ لمعات میں ملاعلی قاری مرحوم لکھتے ہیں:الامر یدل بظاہر علی ان النیابۃانما یجوز بعد اداءفرض الحج والیہ ذہب جماعۃ من الائمۃ والشافعی واحمد یعنی امر نبوی بظاہر اس بات پر دلالت کرتا ہے نیابت اسی کے لئے جائز ہے جو اپنا فرض ادا کرچکا ہو۔ علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے اپنی مایہ ناز کتاب نیل الاوطار میں یہ باب منعقد کیا ہے۔ باب من حج عن غیرہ ولم یکن حج عن نفسہ یعنی جس شخص نے اپنا حج نہیں کیا وہ غیر کا حج بدل کرسکتا ہے یا نہیں اس پر آپ حدیث بالا شبرمہ والی لائے ہیں۔ اور اس پر فیصلہ دیا ہے وہ لیس فی ہذا الباب اصح منہ یعنی حدیث شبرمہ سے زیادہ اس باب میں اور کوئی صحیح حدیث اور وارد نہیں ہوئی ہے۔ پھر فرماتے ہیں:وظاہر الحدیث انہ لا یجوز لمن یحج عن نفسہ ان یحج عن غیرہ وسوائً کان مستطیعا اوغیر مستطیع لا ن النبی صلی اللہ علیہ وسلم لم یستفصل ہذا للرجل الذی سمعہ یلبی عن شبرمۃ وہو ینزل منزلۃ العموم والیٰ ذلک ذہب الشافعی والناصر ( جزءرابع نیل الاوطارص173 ) یعنی اس حدیث ظاہر ہے کہ جس شخص نے اپنے نفس کی طرف سے پہلے حج نہ کیا ہو وہ حج بدل کسی دوسرے کی طرف سے نہیں کرسکتا۔خواہ وہ اپنا حج کرنے کی طاقت رکھنے والا ہو یا طاقت نہ رکھنے والا ہو۔ اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس شخص کو شبرمہ کی طرف سے لبیک پکارتے ہوئے سنا تھا اس سے آپ نے یہ تفصیل دریافت نہیں کی۔ پس یہ بمنزلہ عموم ہے اور امام شافعی رحمہ اللہ وناصر رحمہ اللہ کا یہی مذہب ہے۔ پس حج بدل کرنے اور کرانے والوں کو سوچ سمجھ لینا چاہئے۔ امر ضروری یہی ہے کہ حج بدل کے لئے ایسے آدمی کو تلاش کیا جائے جو اپنا حج ادا کرچکا ہوتا کہ بلاشک وشبہ ادائیگی فریضہ حج ہوسکے۔ اگرکسی بغیرحج کئے ہوئے کو بھیج دیا تو حدیث بالا کے خلاف ہو گا۔نیز حج کی قبولیت اور ادائیگی میں پورا پورا تردد بھی باقی رہے گا۔ عقل مند ایسا کام کیوں کرے جس میں کافی روپیہ خرچ ہو اور قبولیت میں تردد وشک وشبہ ہاتھ آئے چرا کارے کند عاقل کہ باز آید پشیمانی اس حدیث سے یہ نکلا کہ نیابتا دو سرے کی طرف سے حج کرنا درست ہے۔ مگر وہ شخص دوسرے کی طرف سے حج کرسکتاہے جو اپنا فرض حج ادا کرچکا ہوا۔ اور حنفیہ کے نزدیک مطلقاً درست ہے اور ان کے مذہب کو وہ حدیث رد کرتی ہے جس کو ابن خزیمہ اور اصحاب سنن نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نکالا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو شبرمہ کی طرف سے لبیک پکار تے ہوئے سنا، فرمایا کہ تو اپنی طرف سے حج کرچکا ہے؟ اس نے کہا نہیں۔ آپ نے فرمایا تو پہلے اپنی طرف حج کر پھر شبرمہ کی طرف سے کرلو۔ اسی طرح کسی شخص کے مرجانے کے بعد بھی اس کی طرف حج درست ہے۔بشرطیکہ وہ وصیت کر گیا ہو۔ اور بعضوں نے ماں باپ کی طرف سے بلا وصیت بھی حج درست رکھا ہے۔ ( وحیدی ) حج کی ایک قسم حج بدل بھی ہے۔ جو کسی معذور یا متوفی کی طرف سے نیابتا کیا جاتا ہے۔ ا س کی نیت کرتے وقت لبیک کے ساتھ جس کی طرف سے حج کے لئے آیا ہے اس کا نام لینا چاہئے۔ مثلاً ایک شخص زید کی طرف سے حج کے لئے گیا تو وہ یوں پکارے لَبَّیکَ عَن زَیدٍ نِیَابَۃً کسی معذور زندے کی طرف سے حج کرنا جائز ہے۔اسی طرح کسی مرے ہوئے کی طرف سے بھی حج بدل کرایا جاسکتا ہے۔ ایک صحابی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا تھا کہ مریا باپ بہت ہی بوڑھا ہوگیا ہے۔ وہ سواری پر بھی چلنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ آپ اجازت دیں تو میں ان کی طرف سے حج اداکرلوں۔ آپ نے فرمایا۔ ہاں کرلو ( ابن ماجہ ) مگر اس کے لئے یہ ضر وری ہے کہ جس شخص سے حج بدل کرایا جائے وہ پہلے خود اپنا حج ادا کرچکا ہو۔جیسا کہ مندرجہ ذیل حدیث سے ظاہر ہے۔ عن ابن عباس ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سمع رجلا یقول لبیک عن شبرمۃ فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من شبرمۃ قال قریب لی قال ہل حججت قط قال لا قال فاجعل ہذا عن نفسک ثم حج عن شبرمۃ رواہ ابن ماجۃ یعنی ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو سنا وہ لبیک پکارتے وقت کسی شخص شبرمہ نامی کی طرف سے لبیک پکاررہا ہے ہے۔ آپ نے دریافت کیا کہ بھئی یہ شبرمہ کون ہے؟ اس نے کہا کہ شبرمہ میرا ایک قریبی ہے۔ آپ نے پوچھا تو نے کبھی اپنا حج ادا کیا ہے۔ اس نے کہا نہیں۔آپ نے فرمایا، اپنے نفس کی طرف سے حج ادا کر پھر شبرمہ کی طرف سے کرنا۔ اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ حج بدل وہی شخص کرسکتا ہے جوپہلے اپنا حج کرچکا ہو۔ بہت سے ائمہ اور امام شافعی رحمہ اللہ وامام احمد رحمہ اللہ کا یہی مذہب ہے۔ لمعات میں ملاعلی قاری مرحوم لکھتے ہیں:الامر یدل بظاہر علی ان النیابۃانما یجوز بعد اداءفرض الحج والیہ ذہب جماعۃ من الائمۃ والشافعی واحمد یعنی امر نبوی بظاہر اس بات پر دلالت کرتا ہے نیابت اسی کے لئے جائز ہے جو اپنا فرض ادا کرچکا ہو۔ علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے اپنی مایہ ناز کتاب نیل الاوطار میں یہ باب منعقد کیا ہے۔ باب من حج عن غیرہ ولم یکن حج عن نفسہ یعنی جس شخص نے اپنا حج نہیں کیا وہ غیر کا حج بدل کرسکتا ہے یا نہیں اس پر آپ حدیث بالا شبرمہ والی لائے ہیں۔ اور اس پر فیصلہ دیا ہے وہ لیس فی ہذا الباب اصح منہ یعنی حدیث شبرمہ سے زیادہ اس باب میں اور کوئی صحیح حدیث اور وارد نہیں ہوئی ہے۔ پھر فرماتے ہیں:وظاہر الحدیث انہ لا یجوز لمن یحج عن نفسہ ان یحج عن غیرہ وسوائً کان مستطیعا اوغیر مستطیع لا ن النبی صلی اللہ علیہ وسلم لم یستفصل ہذا للرجل الذی سمعہ یلبی عن شبرمۃ وہو ینزل منزلۃ العموم والیٰ ذلک ذہب الشافعی والناصر ( جزءرابع نیل الاوطارص173 ) یعنی اس حدیث ظاہر ہے کہ جس شخص نے اپنے نفس کی طرف سے پہلے حج نہ کیا ہو وہ حج بدل کسی دوسرے کی طرف سے نہیں کرسکتا۔خواہ وہ اپنا حج کرنے کی طاقت رکھنے والا ہو یا طاقت نہ رکھنے والا ہو۔ اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس شخص کو شبرمہ کی طرف سے لبیک پکارتے ہوئے سنا تھا اس سے آپ نے یہ تفصیل دریافت نہیں کی۔ پس یہ بمنزلہ عموم ہے اور امام شافعی رحمہ اللہ وناصر رحمہ اللہ کا یہی مذہب ہے۔ پس حج بدل کرنے اور کرانے والوں کو سوچ سمجھ لینا چاہئے۔ امر ضروری یہی ہے کہ حج بدل کے لئے ایسے آدمی کو تلاش کیا جائے جو اپنا حج ادا کرچکا ہوتا کہ بلاشک وشبہ ادائیگی فریضہ حج ہوسکے۔ اگرکسی بغیرحج کئے ہوئے کو بھیج دیا تو حدیث بالا کے خلاف ہو گا۔نیز حج کی قبولیت اور ادائیگی میں پورا پورا تردد بھی باقی رہے گا۔ عقل مند ایسا کام کیوں کرے جس میں کافی روپیہ خرچ ہو اور قبولیت میں تردد وشک وشبہ ہاتھ آئے چرا کارے کند عاقل کہ باز آید پشیمانی