‌صحيح البخاري - حدیث 1504

كِتَابُ الزَّكَاةِ بَابٌ: صَدَقَةُ الفِطْرِ عَلَى العَبْدِ وَغَيْرِهِ مِنَ المُسْلِمِينَ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَضَ زَكَاةَ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ عَلَى كُلِّ حُرٍّ أَوْ عَبْدٍ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى مِنْ الْمُسْلِمِينَ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 1504

کتاب: زکوٰۃ کے مسائل کا بیان باب: صدقہ فطر کا مسلمانوں پر یہاں تک ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے خبر دی ‘ انہیں نافع نے ‘ اور انہیں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فطر کی زکوٰۃ آزاد یا غلام ‘ مردیا عورت تمام مسلمانوں پر ایک صاع کھجور یا جو فرض کی تھی۔
تشریح : غلام اور لونڈی پر صدقہ فطر فرض ہونے سے یہ مراد ہے کہ ان کا مالک ان کی طرف سے صدقہ دے۔ بعضوں نے کہا کہ یہ صدقہ پہلے غلام لونڈی پر فرض ہوتا ہے پھر مالک ان کی طرف سے اپنے اوپر اٹھالیتا ہے۔ ( وحیدی ) صدقہ فطرکی فرضیت یہاں تک ہے کہ یہ اس پر بھی فرض ہے جس کے پاس ایک روز کی خوراک سے زائد غلہ یا کھانے کی چیز موجود ہے۔ کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا صاع من براوقمح عن کل اثنین صغیر اوکبیر حراو عبد ذکر او انثیٰ اما غنیکم فیزکیہ اللہ واما فقیر کم فیرد علیہ اکثر مما اعطاہ ( ابوداود ) یعنی ایک صاع گیہوں چھوٹے بڑے دونوں آدمیوں آزاد غلام مرد عورت کی طرف سے نکالا جائے اس صدقہ کی وجہ سے اللہ پاک مالدار کو گناہوں سے پاک کردے گا ( اس کا روزہ پاک ہوجائے گا ) اور غریب کو اس سے بھی زیادہ دے گا جتنا کہ اس نے دیا ہے۔ صاع سے مراد صاع حجازی ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مدینہ منورہ میں مروج تھا‘ نہ صاع عراقی مراد ہے۔ صاع حجازی کا وزن اسی تولے کے سیر کے حساب سے پونے تین سیر کے قریب ہوتا ہے، حضرت مولانا عبیداللہ صاحب شیخ الحدیث رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: وہو خمسۃ ارطال وثلث رطل بغدادی ویقال لہ الصاع الحجازی لانہ مستعملا فی بلاد الحجاز وہو الصاع الذی کان مستعملا فی زمن النبی صلی اللہ علیہ وسلم وبہ کانوا یخرجون صدقۃ الفطر وزکوٰۃ المعشرات وغیر ہما من الحقوق الواجبۃ المقدرۃ فی عہدالنبی صلی اللہ علیہ وسلم وبہ قال مالک والشافعی واحمد وابو یوسف وعلماءالحجاز وقال ابو حنیفۃ ومحمد بالصاع العراقی وہو ثمانیۃ ارطال بالرطل المذکور وانما قیل لہ العراقی لانہ کان مستعملا فی بلاد العراق وہوالذی یقال لہ الصاع الحجاجی لانہ اُبَرزہ الحجاج الوالی وکان ابو یوسف یقول کقول ابی حنیفۃ ثم رجع الی قول الجمہور لما تناظر مع مالک بالمدینۃ فاراہ المیعان التی توارثہا اہل المدینۃ عن اسلافہم فی زمن النبی صلی اللہ علیہ وسلم ( مرعاۃ ج 3 ص 93 ) صاع کا وزن 5 رطل اور ثلث رطل بغدادی ہے، اسی کو صاع حجازی کہا جاتا ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں حجاز میں مروج تھا۔ اور عہد رسالت میں صدقہ فطر اور عشر کا غلہ اور دیگر حقوق واجبہ بصورت اجناس اسی صاع سے وزن کرکے ادا کئے جاتے تھے۔ امام مالک رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ اور امام احمد رحمہ اللہ اور امام ابویوسف رحمہ اللہ اور علماءحجاز کا یہی قول ہے۔ اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور امام محمد رحمہ اللہ صاع عراقی مراد لیتے ہیں۔ جو بلاد عراق میں مروج تھا۔ جسے صاع حجاجی بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا وزن آٹھ رطل مذکور کے برابر ہوتا ہے امام ابویوسف رحمہ اللہ بھی اپنے استاد گرامی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ہی کے قول پر فتویٰ دیتے تھے مگر جب آپ مدینہ تشریف لائے اور اس بارے میں امام المدینہ امام مالک رحمہ اللہ سے تبادلہ خیال فرمایا تو امام مالک رحمہ اللہ نے مدینہ کے بہت سے پرانے صاع جمع کرائے۔ جو اہل مدینہ کو زمانہ رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم سے بطور وراثت ملے تھے اور جن کا عہد نبوی میں رواج تھا، ان کا وزن کیا گیا تو 5 رطل ثلث بغدادی نکلا۔ چنانچہ حضرت امام ابویوسف رحمہ اللہ نے اس بارے میں قول جمہور کی طرف رجوع فرمالیا۔ صاع حجاجی اس لیے کہا گیا کہ اسے حجاج والی نے جاری کیاتھا۔ حساب بالا کی رو سے صاع حجازی کا وزن 234 تو لہ ہوتا ہے جس کے 6 تولہ کم تین سیر بنتے ہیں جو اسی ( 80 ) تولہ والے سیر کے مطابق ہیں۔ غلام اور لونڈی پر صدقہ فطر فرض ہونے سے یہ مراد ہے کہ ان کا مالک ان کی طرف سے صدقہ دے۔ بعضوں نے کہا کہ یہ صدقہ پہلے غلام لونڈی پر فرض ہوتا ہے پھر مالک ان کی طرف سے اپنے اوپر اٹھالیتا ہے۔ ( وحیدی ) صدقہ فطرکی فرضیت یہاں تک ہے کہ یہ اس پر بھی فرض ہے جس کے پاس ایک روز کی خوراک سے زائد غلہ یا کھانے کی چیز موجود ہے۔ کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا صاع من براوقمح عن کل اثنین صغیر اوکبیر حراو عبد ذکر او انثیٰ اما غنیکم فیزکیہ اللہ واما فقیر کم فیرد علیہ اکثر مما اعطاہ ( ابوداود ) یعنی ایک صاع گیہوں چھوٹے بڑے دونوں آدمیوں آزاد غلام مرد عورت کی طرف سے نکالا جائے اس صدقہ کی وجہ سے اللہ پاک مالدار کو گناہوں سے پاک کردے گا ( اس کا روزہ پاک ہوجائے گا ) اور غریب کو اس سے بھی زیادہ دے گا جتنا کہ اس نے دیا ہے۔ صاع سے مراد صاع حجازی ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مدینہ منورہ میں مروج تھا‘ نہ صاع عراقی مراد ہے۔ صاع حجازی کا وزن اسی تولے کے سیر کے حساب سے پونے تین سیر کے قریب ہوتا ہے، حضرت مولانا عبیداللہ صاحب شیخ الحدیث رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: وہو خمسۃ ارطال وثلث رطل بغدادی ویقال لہ الصاع الحجازی لانہ مستعملا فی بلاد الحجاز وہو الصاع الذی کان مستعملا فی زمن النبی صلی اللہ علیہ وسلم وبہ کانوا یخرجون صدقۃ الفطر وزکوٰۃ المعشرات وغیر ہما من الحقوق الواجبۃ المقدرۃ فی عہدالنبی صلی اللہ علیہ وسلم وبہ قال مالک والشافعی واحمد وابو یوسف وعلماءالحجاز وقال ابو حنیفۃ ومحمد بالصاع العراقی وہو ثمانیۃ ارطال بالرطل المذکور وانما قیل لہ العراقی لانہ کان مستعملا فی بلاد العراق وہوالذی یقال لہ الصاع الحجاجی لانہ اُبَرزہ الحجاج الوالی وکان ابو یوسف یقول کقول ابی حنیفۃ ثم رجع الی قول الجمہور لما تناظر مع مالک بالمدینۃ فاراہ المیعان التی توارثہا اہل المدینۃ عن اسلافہم فی زمن النبی صلی اللہ علیہ وسلم ( مرعاۃ ج 3 ص 93 ) صاع کا وزن 5 رطل اور ثلث رطل بغدادی ہے، اسی کو صاع حجازی کہا جاتا ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں حجاز میں مروج تھا۔ اور عہد رسالت میں صدقہ فطر اور عشر کا غلہ اور دیگر حقوق واجبہ بصورت اجناس اسی صاع سے وزن کرکے ادا کئے جاتے تھے۔ امام مالک رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ اور امام احمد رحمہ اللہ اور امام ابویوسف رحمہ اللہ اور علماءحجاز کا یہی قول ہے۔ اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور امام محمد رحمہ اللہ صاع عراقی مراد لیتے ہیں۔ جو بلاد عراق میں مروج تھا۔ جسے صاع حجاجی بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا وزن آٹھ رطل مذکور کے برابر ہوتا ہے امام ابویوسف رحمہ اللہ بھی اپنے استاد گرامی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ہی کے قول پر فتویٰ دیتے تھے مگر جب آپ مدینہ تشریف لائے اور اس بارے میں امام المدینہ امام مالک رحمہ اللہ سے تبادلہ خیال فرمایا تو امام مالک رحمہ اللہ نے مدینہ کے بہت سے پرانے صاع جمع کرائے۔ جو اہل مدینہ کو زمانہ رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم سے بطور وراثت ملے تھے اور جن کا عہد نبوی میں رواج تھا، ان کا وزن کیا گیا تو 5 رطل ثلث بغدادی نکلا۔ چنانچہ حضرت امام ابویوسف رحمہ اللہ نے اس بارے میں قول جمہور کی طرف رجوع فرمالیا۔ صاع حجاجی اس لیے کہا گیا کہ اسے حجاج والی نے جاری کیاتھا۔ حساب بالا کی رو سے صاع حجازی کا وزن 234 تو لہ ہوتا ہے جس کے 6 تولہ کم تین سیر بنتے ہیں جو اسی ( 80 ) تولہ والے سیر کے مطابق ہیں۔