كِتَابُ الزَّكَاةِ بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: وَالعَامِلِينَ عَلَيْهَا التوبة: وَمُحَاسَبَةِ المُصَدِّقِينَ مَعَ الإِمَامِ صحيح حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ السَّاعِدِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ اسْتَعْمَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا مِنْ الْأَسْدِ عَلَى صَدَقَاتِ بَنِي سُلَيْمٍ يُدْعَى ابْنَ اللُّتْبِيَّةِ فَلَمَّا جَاءَ حَاسَبَهُ
کتاب: زکوٰۃ کے مسائل کا بیان
باب: زکوٰۃ کے تحصیلداروں کو بھی زکوٰۃ
ہم سے یوسف بن موسیٰ نے بیان کیا ‘ انہو ںنے کہا کہ ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا ‘ ان سے ان کے باپ ( عروہ بن زبیر ) نے بیان کیا ‘ ان سے حضرت ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسد کے ایک شخص عبداللہ بن لتبیہ کو بنی سلیم کی زکوٰۃ وصول کرنے پر مقرر فرمایا۔ جب وہ آئے تو آپ نے ان سے حساب لیا۔
تشریح :
زکوٰۃ وصول کرنے والوں سے حاکم اسلام حساب لے گا تاکہ معاملہ صاف رہے‘ کسی کو بدگمانی کا موقع نہ ملے۔ ابن منیر نے کہا کہ احتمال ہے کہ عامل مذکور نے زکوٰۃ میں سے کچھ اپنے مصارف میں خرچ کردیا ہو‘ لہٰذا اس سے حساب لیا گیا۔ بعض روایات سے یہ بھی ظاہر ہے کہ بعض مال کے متعلق اس نے کہا تھا کہ یہ مجھے بطور تحفہ ملا ہے‘ اس پر حساب لیا گیا۔ اور تحفہ کے بارے میں فرمایا گیا کہ یہ سب بیت المال ہی کا ہے۔ جس کی طرف سے تم کو بھیجا گیا تھا۔ تحفہ میں تمہارا کوئی حق نہیں ہے۔
زکوٰۃ وصول کرنے والوں سے حاکم اسلام حساب لے گا تاکہ معاملہ صاف رہے‘ کسی کو بدگمانی کا موقع نہ ملے۔ ابن منیر نے کہا کہ احتمال ہے کہ عامل مذکور نے زکوٰۃ میں سے کچھ اپنے مصارف میں خرچ کردیا ہو‘ لہٰذا اس سے حساب لیا گیا۔ بعض روایات سے یہ بھی ظاہر ہے کہ بعض مال کے متعلق اس نے کہا تھا کہ یہ مجھے بطور تحفہ ملا ہے‘ اس پر حساب لیا گیا۔ اور تحفہ کے بارے میں فرمایا گیا کہ یہ سب بیت المال ہی کا ہے۔ جس کی طرف سے تم کو بھیجا گیا تھا۔ تحفہ میں تمہارا کوئی حق نہیں ہے۔