كِتَابُ الزَّكَاةِ بَابُ أَخْذِ الصَّدَقَةِ مِنَ الأَغْنِيَاءِ وَتُرَدَّ فِي الفُقَرَاءِ حَيْثُ كَانُوا صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّاءُ بْنُ إِسْحَاقَ عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَيْفِيٍّ عَنْ أَبِي مَعْبَدٍ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ حِينَ بَعَثَهُ إِلَى الْيَمَنِ إِنَّكَ سَتَأْتِي قَوْمًا أَهْلَ كِتَابٍ فَإِذَا جِئْتَهُمْ فَادْعُهُمْ إِلَى أَنْ يَشْهَدُوا أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لَكَ بِذَلِكَ فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّ اللَّهَ قَدْ فَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لَكَ بِذَلِكَ فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّ اللَّهَ قَدْ فَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ فَتُرَدُّ عَلَى فُقَرَائِهِمْ فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لَكَ بِذَلِكَ فَإِيَّاكَ وَكَرَائِمَ أَمْوَالِهِمْ وَاتَّقِ دَعْوَةَ الْمَظْلُومِ فَإِنَّهُ لَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ اللَّهِ حِجَابٌ
کتاب: زکوٰۃ کے مسائل کا بیان
باب: مالداروں سے زکوٰۃ وصول کی جائے
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہمیں عبداللہ نے خبر دی ‘ انہوں نے کہا کہ ہمیں زکریا ابن اسحاق نے خبر دی ‘ انہیں یحیٰی بن عبداللہ بن صیفی نے ‘ انہیں ابن عباس رضی اللہ عنہما کے غلام ابومعبدنے اور ان سے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کو جب یمن بھیجا ‘ تو ان سے فرمایا کہ تم ایک ایسی قوم کے پاس جارہے ہو جو اہل کتاب ہیں۔ اس لیے جب تم وہاں پہنچو تو پہلے انہیں دعوت دو کہ وہ اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے سچے رسول ہیں۔ وہ اس بات میں جب تمہاری بات مان لیں تو انہیں بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر روزانہ دن رات میں پانچ وقت کی نمازیں فرض کی ہیں۔ جب وہ تمہاری یہ بات بھی مان لیں تو انہیں بتاؤ کہ ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ دینا ضروری قرار دیا ہے ‘ یہ ان کے مالداروں سے لی جائے گی اور ان کے غریبوں پر خرچ کی جائے گی۔ پھر جب وہ اس میں بھی تمہاری بات مان لیں تو ان کے اچھے مال لینے سے بچو اور مظلوم کی آہ سے ڈرو کہ اس کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی۔
تشریح :
اس حدیث کے ذیل مولانا عبیداللہ صاحب شیخ الحدیث رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں “قال الحافظ استدل بہ علی ان الامام الذی یتولی قبض الزکوٰۃ وصوفہا امابنفسہ واما بنائبہ فمن امتنع منہا اخذت منہ قہراً یعنی حافظ ابن حجر نے کہا کہ اس حدیث کے جملہ تؤخذ من اغنیائہم سے دلیل لی گئی ہے کہ زکوٰۃ امام وقت وصول کرے گا۔ اور وہی اسے اس کے مصارف میں خرچ کرے گا۔ وہ خود کرے یا اپنے نائب سے کرائے۔ اگر کوئی زکوٰۃ اسے نہ دے تو وہ زبردستی اس سے وصول کرے گا۔ بعض لوگوں نے یہاں جانوروں کی زکوٰۃ مراد لی ہے اور سونے چاندی کی زکوٰۃ میں مختار قرار دیا ہے۔ فان ادی زکوٰتہما خفیۃ یجزءللہ لیکن حضرت مولانا عبیداللہ مد ظلہ فرماتے ہیں والظاہر عندی ان ولایۃ اخذ الامام ظاہرۃ وباطنۃ فان لم یکن امام فرقہا المالک فی مصارفہا وقد حقق ذلک الشوکانی فی السیل الجرار بما لا مزید علیہ فلیرجع الیہ۔ یعنی میرے نزدیک تو ظاہر وباطن ہر قسم کے اموال کے لیے امام وقت کی تولیت ضروری ہے۔ اور اگر امام نہ ہو ( جیسے کہ دور حاضرہ میں کوئی امام خلیفۃ المسلمین نہیں ) تو مالک کو اختیار ہے کہ اس کے مصارف میں خود اس مال زکوٰۃ کو خرچ کردے اس مسئلہ کو امام شوکانی نے سیل الجرار میں بڑی ہی تفصیل کے ساتھ لکھا ہے جس سے زیادہ ممکن نہیں۔ جو چاہے ادھر رجوع کرسکتا ہے۔
یہ مسئلہ کہ اموال زکوٰۃ کو دوسرے شہروں میں نقل کرنا جائز ہے یا نہیں‘ اس بارے میں بھی حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا مسلک اس باب سے ظاہر ہے کہ مسلمان فقراءجہاں بھی ہوں ان پر وہ صرف کیا جاسکتا ہے۔ حضرت امام رحمہ اللہ کے نزدیک ترد علی فقرآئہم کی ضمیر اہل اسلام کی طرف لوٹتی ہے۔ قال ابن المنیر اختار البخاری جواز نقل الزکوٰۃ من بلد المال لعموم قولہ فترد فی فقرائہم لان الضمیر یعود للمسلمین فای فقیر منہم ردت فیہ الصدقۃ فی ای جہۃ کان فقد وافق عموم الحدیث انتہی۔
المحدث الکبیر مولانا عبدالرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: والظاہر عندی عدم النقل الا اذا فقد المستحقون لہا اوتکون فی النقل مصلحۃ انفع واہم من عدمہ واللہ تعالیٰ اعلم ( مرعاۃ جلد 3ص 4 ) یعنی زکوٰۃ نقل نہ ہونی چاہیے مگر جب مستحق مفقود ہوں یا نقل کرنے میں زیادہ فائدہ ہو
اس حدیث کے ذیل مولانا عبیداللہ صاحب شیخ الحدیث رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں “قال الحافظ استدل بہ علی ان الامام الذی یتولی قبض الزکوٰۃ وصوفہا امابنفسہ واما بنائبہ فمن امتنع منہا اخذت منہ قہراً یعنی حافظ ابن حجر نے کہا کہ اس حدیث کے جملہ تؤخذ من اغنیائہم سے دلیل لی گئی ہے کہ زکوٰۃ امام وقت وصول کرے گا۔ اور وہی اسے اس کے مصارف میں خرچ کرے گا۔ وہ خود کرے یا اپنے نائب سے کرائے۔ اگر کوئی زکوٰۃ اسے نہ دے تو وہ زبردستی اس سے وصول کرے گا۔ بعض لوگوں نے یہاں جانوروں کی زکوٰۃ مراد لی ہے اور سونے چاندی کی زکوٰۃ میں مختار قرار دیا ہے۔ فان ادی زکوٰتہما خفیۃ یجزءللہ لیکن حضرت مولانا عبیداللہ مد ظلہ فرماتے ہیں والظاہر عندی ان ولایۃ اخذ الامام ظاہرۃ وباطنۃ فان لم یکن امام فرقہا المالک فی مصارفہا وقد حقق ذلک الشوکانی فی السیل الجرار بما لا مزید علیہ فلیرجع الیہ۔ یعنی میرے نزدیک تو ظاہر وباطن ہر قسم کے اموال کے لیے امام وقت کی تولیت ضروری ہے۔ اور اگر امام نہ ہو ( جیسے کہ دور حاضرہ میں کوئی امام خلیفۃ المسلمین نہیں ) تو مالک کو اختیار ہے کہ اس کے مصارف میں خود اس مال زکوٰۃ کو خرچ کردے اس مسئلہ کو امام شوکانی نے سیل الجرار میں بڑی ہی تفصیل کے ساتھ لکھا ہے جس سے زیادہ ممکن نہیں۔ جو چاہے ادھر رجوع کرسکتا ہے۔
یہ مسئلہ کہ اموال زکوٰۃ کو دوسرے شہروں میں نقل کرنا جائز ہے یا نہیں‘ اس بارے میں بھی حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا مسلک اس باب سے ظاہر ہے کہ مسلمان فقراءجہاں بھی ہوں ان پر وہ صرف کیا جاسکتا ہے۔ حضرت امام رحمہ اللہ کے نزدیک ترد علی فقرآئہم کی ضمیر اہل اسلام کی طرف لوٹتی ہے۔ قال ابن المنیر اختار البخاری جواز نقل الزکوٰۃ من بلد المال لعموم قولہ فترد فی فقرائہم لان الضمیر یعود للمسلمین فای فقیر منہم ردت فیہ الصدقۃ فی ای جہۃ کان فقد وافق عموم الحدیث انتہی۔
المحدث الکبیر مولانا عبدالرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: والظاہر عندی عدم النقل الا اذا فقد المستحقون لہا اوتکون فی النقل مصلحۃ انفع واہم من عدمہ واللہ تعالیٰ اعلم ( مرعاۃ جلد 3ص 4 ) یعنی زکوٰۃ نقل نہ ہونی چاہیے مگر جب مستحق مفقود ہوں یا نقل کرنے میں زیادہ فائدہ ہو