كِتَابُ الزَّكَاةِ بَابُ الصَّدَقَةِ عَلَى مَوَالِي أَزْوَاجِ النَّبِيِّ ﷺ صحيح حَدَّثَنَا آدَمُ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ حَدَّثَنَا الْحَكَمُ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ الْأَسْوَدِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّهَا أَرَادَتْ أَنْ تَشْتَرِيَ بَرِيرَةَ لِلْعِتْقِ وَأَرَادَ مَوَالِيهَا أَنْ يَشْتَرِطُوا وَلَاءَهَا فَذَكَرَتْ عَائِشَةُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اشْتَرِيهَا فَإِنَّمَا الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ قَالَتْ وَأُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلَحْمٍ فَقُلْتُ هَذَا مَا تُصُدِّقَ بِهِ عَلَى بَرِيرَةَ فَقَالَ هُوَ لَهَا صَدَقَةٌ وَلَنَا هَدِيَّةٌ
کتاب: زکوٰۃ کے مسائل کا بیان
باب: نبی کریم ﷺ کی بیویوں کی
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے حکم بن عتبہ نے بیان کیا ‘ ان سے ابراہیم نخعی نے ‘ ان سے اسود نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہ نے کہ ان کا ارادہ ہوا کہ بریرہ رضی اللہ عنہ کو ( جو باندی تھیں ) آزاد کردینے کے لیے خرید لیں۔ لیکن اس کے اصل مالک یہ چاہتے تھے کہ ولاء انہیں کے لیے رہے۔ اس کا ذکر عائشہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا۔ تو آپ نے فرمایا کہ تم خرید کر آزاد کر دو’ ولاءتو اسی کی ہوتی ہے ‘ جو آزاد کرے۔ انہو ں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گوشت پیش کیا گیا۔ میں نے کہا کہ یہ بریرہ رضی اللہ عنہ کو کسی نے صدقہ کے طورپر دیا ہے تو آپ نے فرمایا کہ یہ ان کے لیے صدقہ تھا۔ لیکن اب ہمارے لیے یہ ہدیہ ہے۔
تشریح :
غلام کے آزاد کردینے کے بعد مالک اور آزاد شدہ غلام میں بھائی چارہ کے تعلق کو ولاءکہا جاتا ہے۔ گیا غلام آزاد ہونے کے بعد بھی اصل مالک سے کچھ نہ کچھ متعلق رہتا تھا۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تو اس شخص کا حق ہے جو اسے خرید کر آزاد کرا رہا ہے اب بھائی چارے کا تعلق اصل مالک کی بجائے اس خرید کر آزاد کرنے والے سے ہوگا۔ باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔
غلام کے آزاد کردینے کے بعد مالک اور آزاد شدہ غلام میں بھائی چارہ کے تعلق کو ولاءکہا جاتا ہے۔ گیا غلام آزاد ہونے کے بعد بھی اصل مالک سے کچھ نہ کچھ متعلق رہتا تھا۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تو اس شخص کا حق ہے جو اسے خرید کر آزاد کرا رہا ہے اب بھائی چارے کا تعلق اصل مالک کی بجائے اس خرید کر آزاد کرنے والے سے ہوگا۔ باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔