كِتَابُ الزَّكَاةِ بَابُ العُشْرِ فِيمَا يُسْقَى مِنْ مَاءِ السَّمَاءِ، وَبِالْمَاءِ الجَارِي وَلَمْ يَرَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ العَزِيزِ: «فِي العَسَلِ شَيْئًا صحيح حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِي يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِيمَا سَقَتْ السَّمَاءُ وَالْعُيُونُ أَوْ كَانَ عَثَرِيًّا الْعُشْرُ وَمَا سُقِيَ بِالنَّضْحِ نِصْفُ الْعُشْرِ قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ هَذَا تَفْسِيرُ الْأَوَّلِ لِأَنَّهُ لَمْ يُوَقِّتْ فِي الْأَوَّلِ يَعْنِي حَدِيثَ ابْنِ عُمَرَ وَفِيمَا سَقَتْ السَّمَاءُ الْعُشْرُ وَبَيَّنَ فِي هَذَا وَوَقَّتَ وَالزِّيَادَةُ مَقْبُولَةٌ وَالْمُفَسَّرُ يَقْضِي عَلَى الْمُبْهَمِ إِذَا رَوَاهُ أَهْلُ الثَّبَتِ كَمَا رَوَى الْفَضْلُ بْنُ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يُصَلِّ فِي الْكَعْبَةِ وَقَالَ بِلَالٌ قَدْ صَلَّى فَأُخِذَ بِقَوْلِ بِلَالٍ وَتُرِكَ قَوْلُ الْفَضْلِ
کتاب: زکوٰۃ کے مسائل کا بیان
باب: اس زمین کی پیداوار سے دسواں حصہ لینا
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھے یونس بن یزید نے خبر دی ‘ انہیں شہاب نے ‘ انہیں سالم بن عبداللہ بن عمر نے ‘ انہیں ان کے والد نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ وہ زمین جسے آسمان ( بارش کا پانی ) یا چشمہ سیراب کرتا ہو۔ یا وہ خود بخود نمی سے سیراب ہوجاتی ہو تو اس کی پیداوار سے دسواں حصہ لیا جائے اور وہ زمین جسے کنویں سے پانی کھینچ کر سیراب کیا جاتا ہو تو اس کی پیداوار سے بیسواں حصہ لیا جائے۔ ابوعبداللہ ( امام بخاری رحمہ اللہ ) نے کہا کہ یہ حدیث یعنی عبداللہ بن عمر کی حدیث کہ جس کھیتی میں آسمان کا پانی دیا جائے ‘ دسواں حصہ ہے پہلی حدیث یعنی ابوسعید کی حدیث کی تفسیر ہے۔ اس میں زکوٰۃ کی کوئی مقدار مذکور نہیں ہے اور اس میں مذکور ہے۔ اور زیادتی قبول کی جاتی ہے۔ اور گول مول حدیث کا حکم صاف صاف حدیث کے موافق لیا جاتا ہے۔ جب اس کا راوی ثقہ ہو۔ جیسے فضل بن عباس رضی اللہ عنہ نے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ میں نماز نہیں پڑھی۔ لیکن بلال رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ آپ نے نماز ( کعبہ میں ) پڑھی تھی۔ اس موقع پر بھی بلال رضی اللہ عنہ کی بات قبول کی گئی اور فضل رضی اللہ عنہ کا قول چھوڑ دیا گیا۔
تشریح :
اصول حدیث میں یہ ثابت ہوچکا ہے کہ ثقہ اور ضابط شخص کی زیادتی مقبول ہے۔ اسی بناپر ابوسعید رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے جس میں یہ مذکور نہیں ہے کہ زکوٰۃ میں مال کا کون سا حصہ لیا جائے گا یعنی دسواں حصہ یا بیسواں حصہ اس حدیث یعنی ابن عمر کی حدیث میں زیادتی ہے تو یہ زیادتی واجب القبول ہوگی۔ بعضوں نے یوں ترجمہ کیا ہے یہ حدیث یعنی ابوسعید کی حدیث پہلی حدیث یعنی ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث کی تفسیر کرتی ہے۔ کیونکہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں نصاب کی مقدار مذکور نہیں ہے۔ بلکہ ہر ایک پیداوار سے دسواں حصہ یا بیسواں حصہ لیے جانے کا اس میں ذکر ہے۔ خواہ پانچ وسق ہو یا اس سے کم ہو۔ اور ابوسعید رضی اللہ عنہ کی حدیث میں تفصیل ہے کہ پانچ وسق سے کم میں زکوٰۃ نہیں ہے۔ تو یہ زیادتی ہے۔ اور زیادتی ثقہ اور معتبر راوی کی مقبول ہے۔ ( وحیدالزماں مرحوم )
اصول حدیث میں یہ ثابت ہوچکا ہے کہ ثقہ اور ضابط شخص کی زیادتی مقبول ہے۔ اسی بناپر ابوسعید رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے جس میں یہ مذکور نہیں ہے کہ زکوٰۃ میں مال کا کون سا حصہ لیا جائے گا یعنی دسواں حصہ یا بیسواں حصہ اس حدیث یعنی ابن عمر کی حدیث میں زیادتی ہے تو یہ زیادتی واجب القبول ہوگی۔ بعضوں نے یوں ترجمہ کیا ہے یہ حدیث یعنی ابوسعید کی حدیث پہلی حدیث یعنی ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث کی تفسیر کرتی ہے۔ کیونکہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں نصاب کی مقدار مذکور نہیں ہے۔ بلکہ ہر ایک پیداوار سے دسواں حصہ یا بیسواں حصہ لیے جانے کا اس میں ذکر ہے۔ خواہ پانچ وسق ہو یا اس سے کم ہو۔ اور ابوسعید رضی اللہ عنہ کی حدیث میں تفصیل ہے کہ پانچ وسق سے کم میں زکوٰۃ نہیں ہے۔ تو یہ زیادتی ہے۔ اور زیادتی ثقہ اور معتبر راوی کی مقبول ہے۔ ( وحیدالزماں مرحوم )