‌صحيح البخاري - حدیث 1482

كِتَابُ الزَّكَاةِ بَابُ خَرْصِ الثَّمَرِ صحيح وَقَالَ سُلَيْمَانُ بْنُ بِلاَلٍ: حَدَّثَنِي عَمْرٌو، «ثُمَّ دَارُ بَنِي الحَارِثِ، ثُمَّ بَنِي سَاعِدَةَ» وَقَالَ سُلَيْمَانُ: عَنْ سَعْدِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ غَزِيَّةَ، عَنْ عَبَّاسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أُحُدٌ جَبَلٌ يُحِبُّنَا وَنُحِبُّهُ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 1482

کتاب: زکوٰۃ کے مسائل کا بیان باب: کھجور کا درختوں پر اندازہ کرلینا درست ہے اور سلیمان بن بلال نے کہا کہ مجھ سے عمرو نے اس طرح بیان کیا کہ پھر بنی حارث بن خزرج کا خاندان اور پھر بنو ساعدہ کا خاندان۔ اور سلیمان نے سعد بن سعید سے بیان کیا ‘ ان سے عمارہ بن غزنیہ نے ‘ ان سے عباس نے ‘ ان سے ان کے باپ ( سہل ) نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا احد وہ پہاڑ ہے جو ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہم اس سے محبت رکھتے ہیں۔
تشریح : اس طویل حدیث میں جہاں کھجوروں کا اندازہ کرلینے کا ذکر ہے وہاں اور بھی بہت سے حقائق کا بیان ہے۔ غزوئہ تبوک 9 ھ میں ایسے وقت میں پیش آیا کہ موسم گرما اپنے پورے شباب پر تھا اور مدینہ میں کھجور کی فصل بالکل تیار تھی۔ پھر بھی صحابہ کرام نے بڑی جان نثاری کا ثبوت دیا اور ہر پریشانی کا مقابلہ کرتے ہوئے وہ اس طویل سفر میں شریک ہوئے۔ سرحد کا معاملہ تھا۔ آپ دشمن کے انتظار میں وہاں کافی ٹھہرے رہے مگر دشمن مقابلہ کے لیے نہ آیا۔ بلکہ قریب ہی ایلہ شہر کے عیسائی حاکم یوحنا بن روبہ نے آپ کو صلح کا پیغام دیا۔ آپ نے اس کی حکومت اس کے لیے برقرار رکھی۔ کیونکہ آپ کا منشاءملک گیری کا ہرگز نہ تھا۔ واپسی میں آپ کو مدینہ کی محبت نے سفر میں عجلت پر آمادہ کردیا تو آپ نے مدینہ جلد سے جلد پہنچنے کا اعلان فرمادیا۔ جب یہ پاک شہر نظر آنے لگا تو آپ اس قدر خوش ہوئے کہ آپ نے اس مقدس شہر کو لفظ طابہ سے موسوم فرمایا۔ جس کے معنے پاکیزہ اور عمدہ کے ہیں۔ احد پہاڑ کے حق میں بھی اپنی انتہائی محبت کا اظہار فرمایا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبائل انصار کی درجہ بدرجہ فضیلت بیان فرمائی جن میں اولین درجہ بنونجار کو دیا گیا۔ ان ہی لوگوں میں آپ کی ننہال تھی اور سب سے پہلے جب آپ مدینہ تشریف لائے یہ لوگ ہتھیار باندھ کر آپ کے استقبال کے لیے حاضر ہوئے تھے۔ پھر تمام ہی قبائل انصار تعریف کے قابل ہیں جنہوں نے دل وجان سے اسلام کی ایسی مدد کی کہ تاریخ میں ہمیشہ کے لیے یاد رہ گئے۔ رضی اللہ عنہم ورضواعنہ۔ اس طویل حدیث میں جہاں کھجوروں کا اندازہ کرلینے کا ذکر ہے وہاں اور بھی بہت سے حقائق کا بیان ہے۔ غزوئہ تبوک 9 ھ میں ایسے وقت میں پیش آیا کہ موسم گرما اپنے پورے شباب پر تھا اور مدینہ میں کھجور کی فصل بالکل تیار تھی۔ پھر بھی صحابہ کرام نے بڑی جان نثاری کا ثبوت دیا اور ہر پریشانی کا مقابلہ کرتے ہوئے وہ اس طویل سفر میں شریک ہوئے۔ سرحد کا معاملہ تھا۔ آپ دشمن کے انتظار میں وہاں کافی ٹھہرے رہے مگر دشمن مقابلہ کے لیے نہ آیا۔ بلکہ قریب ہی ایلہ شہر کے عیسائی حاکم یوحنا بن روبہ نے آپ کو صلح کا پیغام دیا۔ آپ نے اس کی حکومت اس کے لیے برقرار رکھی۔ کیونکہ آپ کا منشاءملک گیری کا ہرگز نہ تھا۔ واپسی میں آپ کو مدینہ کی محبت نے سفر میں عجلت پر آمادہ کردیا تو آپ نے مدینہ جلد سے جلد پہنچنے کا اعلان فرمادیا۔ جب یہ پاک شہر نظر آنے لگا تو آپ اس قدر خوش ہوئے کہ آپ نے اس مقدس شہر کو لفظ طابہ سے موسوم فرمایا۔ جس کے معنے پاکیزہ اور عمدہ کے ہیں۔ احد پہاڑ کے حق میں بھی اپنی انتہائی محبت کا اظہار فرمایا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبائل انصار کی درجہ بدرجہ فضیلت بیان فرمائی جن میں اولین درجہ بنونجار کو دیا گیا۔ ان ہی لوگوں میں آپ کی ننہال تھی اور سب سے پہلے جب آپ مدینہ تشریف لائے یہ لوگ ہتھیار باندھ کر آپ کے استقبال کے لیے حاضر ہوئے تھے۔ پھر تمام ہی قبائل انصار تعریف کے قابل ہیں جنہوں نے دل وجان سے اسلام کی ایسی مدد کی کہ تاریخ میں ہمیشہ کے لیے یاد رہ گئے۔ رضی اللہ عنہم ورضواعنہ۔