كِتَابُ الزَّكَاةِ بَابُ مَنْ سَأَلَ النَّاسَ تَكَثُّرًا صحيح وَقَالَ: إِنَّ الشَّمْسَ تَدْنُو يَوْمَ القِيَامَةِ، حَتَّى يَبْلُغَ العَرَقُ نِصْفَ الأُذُنِ، فَبَيْنَا هُمْ كَذَلِكَ اسْتَغَاثُوا بِآدَمَ، ثُمَّ بِمُوسَى، ثُمَّ بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ» وَزَادَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي جَعْفَرٍ: فَيَشْفَعُ لِيُقْضَى بَيْنَ الخَلْقِ، فَيَمْشِي حَتَّى يَأْخُذَ بِحَلْقَةِ البَابِ، فَيَوْمَئِذٍ يَبْعَثُهُ اللَّهُ مَقَامًا مَحْمُودًا، يَحْمَدُهُ أَهْلُ الجَمْعِ كُلُّهُمْ وَقَالَ مُعَلًّى: حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ رَاشِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُسْلِمٍ أَخِي الزُّهْرِيِّ، عَنْ حَمْزَةَ، سَمِعَ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ
کتاب: زکوٰۃ کے مسائل کا بیان
باب: اگر کوئی شخص اپنی دولت بڑھانے
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن سورج اتنا قریب ہو جائے گا کہ پسینہ آدھے کان تک پہنچ جائے گا۔ لوگ اسی حال میں اپنی مخلصی کے لیے حضرت آدم علیہ السلام سے فریاد کریں گے۔ پھر موسیٰ علیہ السلام سے۔ اور پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے۔ عبداللہ نے اپنی روایت میں یہ زیادتی کی ہے کہ مجھ سے لیث نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے ابن ابی جعفر نے بیان کیا ‘ کہ پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم شفاعت کریں گے کہ مخلوق کا فیصلہ کیا جائے۔ پھر آپ بڑھیں گے اور جنت کے دروازے کا حلقہ تھام لیں گے۔ اور اسی دن اللہ تعالیٰ آپ کو مقام محمود عطا فرمائے گا۔ جس کی تمام اہل محشر تعریف کریں گے۔ اور معلی بن اسد نے کہا کہ ہم سے وہیب نے نعمان بن راشد سے بیان کیا ‘ ان سے زہری کے بھائی عبداللہ بن مسلم نے ‘ ان سے حمزہ بن عبداللہ نے ‘ اور انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پھر اتنی ہی حدیث بیان کی جو سوال کے باب میں ہے۔
تشریح :
حدیث کے باب میں بھی سوال کرنے کی مذمت کی گئی ہے اور بتلایا گیاہے کہ غیر مستحق سوال کرنے والوں کا حشر میں یہ حال ہوگا کہ ان کے چہرے پر گوشت نہ ہوگا اور اس ذلت وخواری کے ساتھ وہ میدان حشر میں محشور ہوں گے۔
سوال کرنے کی تفصیل میں علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وہی علی ثلاثۃ اوجہ حرام ومکروہ ومباح فالحرام لمن سال وہو غنی من زکوٰۃ او اظہر من الفقر فوق ماہو بہ والمکروہ لمن سال ما عندہ ما یمنعہ عن ذلک ولم یظہر من الفقر فوق ما ہو بہ والمباح لمن سال بالمعروف قریبا او صدیقا واما السوال عند الضرورۃ واجب لا حیاءالنفس وادخلہ الداودی فی المباح واما الاخذ من غیر مسئلۃ ولا اشراف نفس فلا باس بہ ( عینی ) یعنی سوال کی تین قسمیں ہیں۔ حرام‘ مکروہ اور مباح۔ حرام تو اس کے لیے جو مالدار ہونے کے باوجود زکوٰۃ میں سے مانگے اور خواہ مخواہ اپنے کو محتاج ظاہر کرے۔ مکروہ اس کے لیے جس کے پاس وہ چیز موجود ہے جسے وہ اور سے مانگ رہا ہے، وہ یہ نہیں سوچتا کہ یہ چیز تو میرے پاس موجود ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہ اپنے آپ کو محتاج بھی ظاہر نہیں کرتا پھر سوال کررہا ہے۔ اور مباح اس کے لیے ہے جو حقیقی حاجت کے وقت اپنے کسی خاص دوست یا رشتہ دار سے سوال کرے۔ بعض مرتبہ سخت ترین ضرورت کے تحت جہاں موت وزندگی کا سوال آجائے سوال کرنا بھی ضروری ہوجاتا ہے اور بغیر سوال کئے اور تانکے جھانکے کوئی چیز از خود مل جائے تو اس کے لینے میں کوئی ہرج نہیں ہے۔
غیر مستحقین سائلین کی سزا کے بیان کے ساتھ اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کبریٰ کا بھی بیان کیا گیا ہے جو قیامت میں آپ کو حاصل ہوگی۔ جہاں کسی بھی نبی ورسول کو مجال کلام نہ ہوگا وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نوع انسان کے لیے شافع اور مشفع بن کر تشریف لائیں گے۔ اللہم ارزقنا شفاعۃ حبیبک صلی اللہ علیہ وسلم یوم القیامۃ امین
حدیث کے باب میں بھی سوال کرنے کی مذمت کی گئی ہے اور بتلایا گیاہے کہ غیر مستحق سوال کرنے والوں کا حشر میں یہ حال ہوگا کہ ان کے چہرے پر گوشت نہ ہوگا اور اس ذلت وخواری کے ساتھ وہ میدان حشر میں محشور ہوں گے۔
سوال کرنے کی تفصیل میں علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وہی علی ثلاثۃ اوجہ حرام ومکروہ ومباح فالحرام لمن سال وہو غنی من زکوٰۃ او اظہر من الفقر فوق ماہو بہ والمکروہ لمن سال ما عندہ ما یمنعہ عن ذلک ولم یظہر من الفقر فوق ما ہو بہ والمباح لمن سال بالمعروف قریبا او صدیقا واما السوال عند الضرورۃ واجب لا حیاءالنفس وادخلہ الداودی فی المباح واما الاخذ من غیر مسئلۃ ولا اشراف نفس فلا باس بہ ( عینی ) یعنی سوال کی تین قسمیں ہیں۔ حرام‘ مکروہ اور مباح۔ حرام تو اس کے لیے جو مالدار ہونے کے باوجود زکوٰۃ میں سے مانگے اور خواہ مخواہ اپنے کو محتاج ظاہر کرے۔ مکروہ اس کے لیے جس کے پاس وہ چیز موجود ہے جسے وہ اور سے مانگ رہا ہے، وہ یہ نہیں سوچتا کہ یہ چیز تو میرے پاس موجود ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہ اپنے آپ کو محتاج بھی ظاہر نہیں کرتا پھر سوال کررہا ہے۔ اور مباح اس کے لیے ہے جو حقیقی حاجت کے وقت اپنے کسی خاص دوست یا رشتہ دار سے سوال کرے۔ بعض مرتبہ سخت ترین ضرورت کے تحت جہاں موت وزندگی کا سوال آجائے سوال کرنا بھی ضروری ہوجاتا ہے اور بغیر سوال کئے اور تانکے جھانکے کوئی چیز از خود مل جائے تو اس کے لینے میں کوئی ہرج نہیں ہے۔
غیر مستحقین سائلین کی سزا کے بیان کے ساتھ اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کبریٰ کا بھی بیان کیا گیا ہے جو قیامت میں آپ کو حاصل ہوگی۔ جہاں کسی بھی نبی ورسول کو مجال کلام نہ ہوگا وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نوع انسان کے لیے شافع اور مشفع بن کر تشریف لائیں گے۔ اللہم ارزقنا شفاعۃ حبیبک صلی اللہ علیہ وسلم یوم القیامۃ امین