‌صحيح البخاري - حدیث 1469

كِتَابُ الزَّكَاةِ بَابُ الِاسْتِعْفَافِ عَنِ المَسْأَلَةِ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ اللَّيْثِيِّ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِنَّ نَاسًا مِنْ الْأَنْصَارِ سَأَلُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَعْطَاهُمْ ثُمَّ سَأَلُوهُ فَأَعْطَاهُمْ ثُمَّ سَأَلُوهُ فَأَعْطَاهُمْ حَتَّى نَفِدَ مَا عِنْدَهُ فَقَالَ مَا يَكُونُ عِنْدِي مِنْ خَيْرٍ فَلَنْ أَدَّخِرَهُ عَنْكُمْ وَمَنْ يَسْتَعْفِفْ يُعِفَّهُ اللَّهُ وَمَنْ يَسْتَغْنِ يُغْنِهِ اللَّهُ وَمَنْ يَتَصَبَّرْ يُصَبِّرْهُ اللَّهُ وَمَا أُعْطِيَ أَحَدٌ عَطَاءً خَيْرًا وَأَوْسَعَ مِنْ الصَّبْرِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 1469

کتاب: زکوٰۃ کے مسائل کا بیان باب: سوال سے بچنے کا بیان ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہمیں امام مالک نے ‘ ابن شہاب سے خبر دی ‘ انہیں عطاءبن یزید لیثی نے اور انہیں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہ انصار کے کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تو آپ نے انہیں دیا۔ پھر انہوں نے سوال کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر دیا۔ یہاں تک کہ جو مال آپ کے پاس تھا۔ اب وہ ختم ہوگیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میرے پاس جو مال ودولت ہوتو میں اسے بچا کر نہیں رکھوں گا۔ مگر جو شخص سوال کرنے سے بچتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اسے سوال کرنے سے محفوظ ہی رکھتا ہے۔ اور جو شخص بے نیازی برتتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے بے نیاز بنادیتا ہے اور جو شخص اپنے اوپر زور ڈال کر بھی صبر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اسے صبرو استقلال دے دیتا ہے۔ اور کسی کو بھی صبر سے زیادہ بہتر اور اس سے زیادہ بے پایاں خیر نہیں ملی۔ ( صبر تمام نعمتوں سے بڑھ کر ہے )
تشریح : شریعت اسلامیہ کی بے شمار خوبیوں میں سے ایک یہ خوبی بھی کس قدر اہم ہے کہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے‘سوال کرنے سے مختلف طریقوں کے ساتھ ممانعت کی ہے اور ساتھ ہی اپنے زور بازو سے کمانے اور رزق حاصل کرنے کی ترغیبات دلائی ہیں۔ مگر پھر بھی کتنے ہی ایسے معذورین مرد عورت ہوتے ہیں جن کو بغیر سوال کئے چارہ نہیں۔ ان کے لیے فرمایا وَاَمَّا السَّائِلَ فَلاَ تَنہَر یعنی سوال کرنے والوں کو نہ ڈانٹو بلکہ نرمی سے ان کو جواب دے دو۔ حدیث ہذا کے راوی حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ ہیں۔ جن کا نام سعد بن مالک ہے۔ اور یہ انصاری ہیں۔ جو کنیت ہی سے زیادہ مشہور ہیں۔ حافظ حدیث اور صاحب فضل و عقل علمائے کبار صحابہ میں ان کا شمار ہے 84 سال کی عمر پائی اور 74 ھ میں انتقال کیا اور جنت البقیع میں سپرد خاک کئے گئے رضی اللہ عنہ وارضاہ۔ شریعت اسلامیہ کی بے شمار خوبیوں میں سے ایک یہ خوبی بھی کس قدر اہم ہے کہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے‘سوال کرنے سے مختلف طریقوں کے ساتھ ممانعت کی ہے اور ساتھ ہی اپنے زور بازو سے کمانے اور رزق حاصل کرنے کی ترغیبات دلائی ہیں۔ مگر پھر بھی کتنے ہی ایسے معذورین مرد عورت ہوتے ہیں جن کو بغیر سوال کئے چارہ نہیں۔ ان کے لیے فرمایا وَاَمَّا السَّائِلَ فَلاَ تَنہَر یعنی سوال کرنے والوں کو نہ ڈانٹو بلکہ نرمی سے ان کو جواب دے دو۔ حدیث ہذا کے راوی حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ ہیں۔ جن کا نام سعد بن مالک ہے۔ اور یہ انصاری ہیں۔ جو کنیت ہی سے زیادہ مشہور ہیں۔ حافظ حدیث اور صاحب فضل و عقل علمائے کبار صحابہ میں ان کا شمار ہے 84 سال کی عمر پائی اور 74 ھ میں انتقال کیا اور جنت البقیع میں سپرد خاک کئے گئے رضی اللہ عنہ وارضاہ۔