كِتَابُ الزَّكَاةِ بَابُ الزَّكَاةِ عَلَى الزَّوْجِ وَالأَيْتَامِ فِي الحَجْرِ صحيح حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ قَالَ حَدَّثَنِي شَقِيقٌ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ عَنْ زَيْنَبَ امْرَأَةِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ فَذَكَرْتُهُ لِإِبْرَاهِيمَ ح فَحَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ عَنْ زَيْنَبَ امْرَأَةِ عَبْدِ اللَّهِ بِمِثْلِهِ سَوَاءً قَالَتْ كُنْتُ فِي الْمَسْجِدِ فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ تَصَدَّقْنَ وَلَوْ مِنْ حُلِيِّكُنَّ وَكَانَتْ زَيْنَبُ تُنْفِقُ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ وَأَيْتَامٍ فِي حَجْرِهَا قَالَ فَقَالَتْ لِعَبْدِ اللَّهِ سَلْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيَجْزِي عَنِّي أَنْ أُنْفِقَ عَلَيْكَ وَعَلَى أَيْتَامٍ فِي حَجْرِي مِنْ الصَّدَقَةِ فَقَالَ سَلِي أَنْتِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَانْطَلَقْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَجَدْتُ امْرَأَةً مِنْ الْأَنْصَارِ عَلَى الْبَابِ حَاجَتُهَا مِثْلُ حَاجَتِي فَمَرَّ عَلَيْنَا بِلَالٌ فَقُلْنَا سَلْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيَجْزِي عَنِّي أَنْ أُنْفِقَ عَلَى زَوْجِي وَأَيْتَامٍ لِي فِي حَجْرِي وَقُلْنَا لَا تُخْبِرْ بِنَا فَدَخَلَ فَسَأَلَهُ فَقَالَ مَنْ هُمَا قَالَ زَيْنَبُ قَالَ أَيُّ الزَّيَانِبِ قَالَ امْرَأَةُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ نَعَمْ لَهَا أَجْرَانِ أَجْرُ الْقَرَابَةِ وَأَجْرُ الصَّدَقَةِ
کتاب: زکوٰۃ کے مسائل کا بیان
باب: عورت کا خود اپنے شوہر کو یا اپنی
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے میرے باپ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا ‘ ان سے شقیق نے ‘ ان سے عمر وبن الحارث نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی زینب رضی اللہ عنہ نے۔ ( اعمش نے ) کہا کہ میں نے اس حدیث کا ذکر ابراہیم نحعی سے کیا۔ تو انہوں نے بھی مجھ سے ابوعبیدہ سے بیان کیا۔ ان سے عمروبن حارث نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی زینب نے ‘ بالکل اسی طرح حدیث بیان کی ( جس طرح شقیق نے کی کہ ) زینب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں مسجد نبوی میں تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے دیکھا۔ آپ یہ فرما رہے تھے ‘ صدقہ کرو ‘ خواہ اپنے زیور ہی میں سے دو۔ اور زینب اپنا صدقہ اپنے شوہر حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور چند یتیموں پر بھی جوان کی پرورش میں تھے خرچ کیا کرتی تھیں۔ اس لیے انہوں نے اپنے خاوند سے کہا کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھئے کہ کیا وہ صدقہ بھی مجھ سے کفایت کرے گا جو میں آپ پر اور ان چند یتیموں پر خرچ کروں جو میری سپردگی میں ہیں۔ لیکن عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم خود جاکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لو۔ آخر میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ اس وقت میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر ایک انصاری خاتون کو پایا۔ جو میری ہی جیسی ضرورت لے کر موجود تھیں۔ ( جو زینب ابومسعود انصاری کی بیوی تھیں ) پھر ہمارے سامنے سے بلال گذرے۔ تو ہم نے ان سے کہا کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ دریافت کیجئے کہ کیا وہ صدقہ مجھ سے کفایت کرے گا جسے میں اپنے شوہر اور اپنی زیر تحویل چند یتیم بچوں پر خرچ کردوں۔ ہم نے بلال سے یہ بھی کہا کہ ہمارا نام نہ لینا۔ وہ اندر گئے اور آپ سے عرض کیا کہ دو عورتیں مسئلہ دریافت کرتی ہیں۔ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ دونوں کون ہیں؟ بلال رضی اللہ عنہ نے کہہ دیا کہ زینب نام کی ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ کون سی زینب؟ بلال رضی اللہ عنہ نے کہا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں! بے شک درست ہے۔ اور انہیں دوگنا ثواب ملے گا۔ ایک قرابت داری کا اور دوسرا خیرات کرنے کا۔
تشریح :
اس حدیث میں صدقہ یعنی خیرات کا لفظ ہے جو فرض صدقہ یعنی زکوٰۃ اور نفل خیرات دونوں کو شامل ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ اور ثوری رحمہ اللہ اور صاحبین اور امام مالک رحمہ اللہ اور امام احمد رحمہ اللہ سے ایک روایت ایسی ہی ہے اپنے خاوند کو اور بیٹوں کو ( بشرطیکہ وہ غریب مسکین ہوں ) دینا درست ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ ماں باپ اور بیٹے کو دینا درست نہیں۔ اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک خاوند کو بھی زکوٰۃ دیناد رست نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان حدیثوں میں صدقہ سے نفل صدقہ مراد ہے۔ ( وحیدی )
لیکن خود حضرت امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے یہاں زکوٰۃ فرض کو مراد لیا ہے۔ جس سے ان کا مسلک ظاہر ہے حدیث کے ظاہر الفاظ سے بھی حضرت امام کے خیال ہی کی تائید ہوتی ہے۔
اس حدیث میں صدقہ یعنی خیرات کا لفظ ہے جو فرض صدقہ یعنی زکوٰۃ اور نفل خیرات دونوں کو شامل ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ اور ثوری رحمہ اللہ اور صاحبین اور امام مالک رحمہ اللہ اور امام احمد رحمہ اللہ سے ایک روایت ایسی ہی ہے اپنے خاوند کو اور بیٹوں کو ( بشرطیکہ وہ غریب مسکین ہوں ) دینا درست ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ ماں باپ اور بیٹے کو دینا درست نہیں۔ اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک خاوند کو بھی زکوٰۃ دیناد رست نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان حدیثوں میں صدقہ سے نفل صدقہ مراد ہے۔ ( وحیدی )
لیکن خود حضرت امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے یہاں زکوٰۃ فرض کو مراد لیا ہے۔ جس سے ان کا مسلک ظاہر ہے حدیث کے ظاہر الفاظ سے بھی حضرت امام کے خیال ہی کی تائید ہوتی ہے۔