كِتَابُ الزَّكَاةِ بَابٌ: لَيْسَ عَلَى المُسْلِمِ فِي عَبْدِهِ صَدَقَةٌ صحيح حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ عَنْ خُثَيْمِ بْنِ عِرَاكٍ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ح حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا وُهَيْبُ بْنُ خَالِدٍ حَدَّثَنَا خُثَيْمُ بْنُ عِرَاكِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَيْسَ عَلَى الْمُسْلِمِ صَدَقَةٌ فِي عَبْدِهِ وَلَا فِي فَرَسِهِ
کتاب: زکوٰۃ کے مسائل کا بیان
باب: مسلمان کو اپنے غلام ( لونڈی ) کی زکوٰۃ
ہم سے مسدد نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے یحیٰی بن سعید نے بیان کیا ‘ ان سے خثیم بن عراک بن مالک نے ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا ‘ اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے ( دوسری سند ) اور ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے خثیم بن عراک بن مالک نے بیان کیا ‘ انہوں نے اپنے باپ سے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسلمان پر نہ اس کے غلام میں زکوٰۃ فرض ہے اور نہ گھوڑے میں۔
تشریح :
اہلحدیث کا محقق مذہب یہی ہے کہ غلاموں اور گھوڑوں میں مطلقاً زکوٰۃ نہیں ہے گو تجارت کے لیے ہوں۔ مگر ابن مندر نے اس پر اجماع نقل کیا ہے کہ اگر تجارت کے لیے ہوں تو ان میں زکوٰۃ ہے۔ اصل یہ ہے کہ زکوٰۃ ان ہی جنسوں میں لازم ہے جن کا بیان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا۔ یعنی چوپایوں میں سے اونٹ‘ گائے‘ اور بیل بکریوں میں اور نقد مال سے سونے چاندی میں اور غلوں میں سے گیہوں اور جو اور جوار اور میووں میں سے کھجور‘ اور سوکھی انگور میں‘ بس ان کے سوا اور کسی مال میں زکوٰۃ نہیں گو وہ تجارت اور سودا گری ہی کے لیے ہو اور ابن منذر نے جو اجماع اس کے خلاف پر نقل کیا ہے وہ صحیح نہیں ہے۔ جب ظاہر یہ اور اہلحدیث اس مسئلہ میں مختلف ہیں تو اجماع کیوں کرہوسکتا ہے۔ اور ابوداؤد کی حدیث اور دار قطنی کی حدیث کہ جس مال کو ہم بیچنے کے لیے رکھیں اس میں آپ نے زکوٰۃ کا حکم دیا‘ یا کپڑے میں زکوٰۃ ہے ضعیف ہے۔ حجت کے لیے لائق نہیں۔
اور آیت قرآن خذ من اموالہم صدقۃ میں اموال سے وہی مال مراد ہیں جن کی زکوٰۃ کی تصریح حدیث میں آئی ہے۔ یہ امام شوکانی کی تحقیق ہے اور سید علامہ نے اس کی تائید کی ہے۔ اس بناپر جواہر‘ موتی‘ مونگا‘ یاقوت‘ الماس اور دوسری صدہا اشیائے تجارتی میں جیسے گھوڑے، گاڑیاں، کتابیں،کاغذ میں زکوٰۃ واجب نہ ہوگی۔ مگر چونکہ ائمہ اربعہ اور جمہور علماءاموال تجارتی میں وجوب زکوٰۃ کی طرف گئے ہیں لہٰذا احتیاط اور تقویٰ یہی ہے کہ ان میں سے زکوٰۃ نکالے۔ ( وحیدی )
اہلحدیث کا محقق مذہب یہی ہے کہ غلاموں اور گھوڑوں میں مطلقاً زکوٰۃ نہیں ہے گو تجارت کے لیے ہوں۔ مگر ابن مندر نے اس پر اجماع نقل کیا ہے کہ اگر تجارت کے لیے ہوں تو ان میں زکوٰۃ ہے۔ اصل یہ ہے کہ زکوٰۃ ان ہی جنسوں میں لازم ہے جن کا بیان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا۔ یعنی چوپایوں میں سے اونٹ‘ گائے‘ اور بیل بکریوں میں اور نقد مال سے سونے چاندی میں اور غلوں میں سے گیہوں اور جو اور جوار اور میووں میں سے کھجور‘ اور سوکھی انگور میں‘ بس ان کے سوا اور کسی مال میں زکوٰۃ نہیں گو وہ تجارت اور سودا گری ہی کے لیے ہو اور ابن منذر نے جو اجماع اس کے خلاف پر نقل کیا ہے وہ صحیح نہیں ہے۔ جب ظاہر یہ اور اہلحدیث اس مسئلہ میں مختلف ہیں تو اجماع کیوں کرہوسکتا ہے۔ اور ابوداؤد کی حدیث اور دار قطنی کی حدیث کہ جس مال کو ہم بیچنے کے لیے رکھیں اس میں آپ نے زکوٰۃ کا حکم دیا‘ یا کپڑے میں زکوٰۃ ہے ضعیف ہے۔ حجت کے لیے لائق نہیں۔
اور آیت قرآن خذ من اموالہم صدقۃ میں اموال سے وہی مال مراد ہیں جن کی زکوٰۃ کی تصریح حدیث میں آئی ہے۔ یہ امام شوکانی کی تحقیق ہے اور سید علامہ نے اس کی تائید کی ہے۔ اس بناپر جواہر‘ موتی‘ مونگا‘ یاقوت‘ الماس اور دوسری صدہا اشیائے تجارتی میں جیسے گھوڑے، گاڑیاں، کتابیں،کاغذ میں زکوٰۃ واجب نہ ہوگی۔ مگر چونکہ ائمہ اربعہ اور جمہور علماءاموال تجارتی میں وجوب زکوٰۃ کی طرف گئے ہیں لہٰذا احتیاط اور تقویٰ یہی ہے کہ ان میں سے زکوٰۃ نکالے۔ ( وحیدی )