كِتَابُ الزَّكَاةِ بَابُ الزَّكَاةِ عَلَى الأَقَارِبِ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، أَنَّهُسَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: كَانَ أَبُو طَلْحَةَ أَكْثَرَ الأَنْصَارِ بِالْمَدِينَةِ مَالًا مِنْ نَخْلٍ، وَكَانَ أَحَبُّ أَمْوَالِهِ إِلَيْهِ بَيْرُحَاءَ، وَكَانَتْ مُسْتَقْبِلَةَ المَسْجِدِ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْخُلُهَا وَيَشْرَبُ مِنْ مَاءٍ فِيهَا طَيِّبٍ، قَالَ أَنَسٌ: فَلَمَّا أُنْزِلَتْ هَذِهِ الآيَةُ: {لَنْ تَنَالُوا البِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ آل عمران: قَامَ أَبُو طَلْحَةَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى يَقُولُ: لَنْ تَنَالُوا البِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ آل عمران وَإِنَّ أَحَبَّ أَمْوَالِي إِلَيَّ بَيْرُحَاءَ، وَإِنَّهَا صَدَقَةٌ لِلَّهِ، أَرْجُو بِرَّهَا وَذُخْرَهَا عِنْدَ اللَّهِ، فَضَعْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ حَيْثُ أَرَاكَ اللَّهُ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «بَخٍ، ذَلِكَ مَالٌ رَابِحٌ، ذَلِكَ مَالٌ رَابِحٌ، وَقَدْ سَمِعْتُ مَا قُلْتَ، وَإِنِّي أَرَى أَنْ تَجْعَلَهَا فِي الأَقْرَبِينَ» فَقَالَ أَبُو طَلْحَةَ: أَفْعَلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَسَمَهَا أَبُو طَلْحَةَ فِي أَقَارِبِهِ وَبَنِي عَمِّهِ، تَابَعَهُ رَوْحٌ، وَقَالَ يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، وَإِسْمَاعِيلُ: عَنْ مَالِكٍ «رَايِحٌ
کتاب: زکوٰۃ کے مسائل کا بیان
باب: اپنے رشتہ داروں کو زکوٰۃ دینا
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے امام مالک رحمہ اللہ نے بیان کیا ‘ ان سے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے ‘ کہ انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ انہوں نے کہا کہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ مدینہ میں انصارمیں سب سے زیادہ مالدار تھے۔ اپنے کھجور کے باغات کی وجہ سے۔ اور اپنے باغات میں سب سے زیادہ پسند انہیں بیرحاءکا باغ تھا۔ یہ باغ مسجد نبوی کے بالکل سامنے تھا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں تشریف لے جایا کرتے اور اس کا میٹھا پانی پیا کرتے تھے۔ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی لن تنالوا البرالخ یعنی “ تم نیکی کو اس وقت تک نہیں پاسکتے جب تک تم اپنی پیاری سے پیاری چیز نہ خرچ کرو۔ ” یہ سن کر ابوطلحہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اس وقت تک نیکی کو نہیں پاسکتے جب تک تم اپنی پیاری سے پیاری چیز نہ خرچ کرو۔ اور مجھے بیرحاءکا باغ سب سے زیادہ پیارا ہے۔ اس لیے میں اسے اللہ تعالیٰ کے لیے خیرات کرتا ہوں۔ اس کی نیکی اور اس کے ذخیرئہ آخرت ہونے کا امیدوار ہوں۔ اللہ کے حکم سے جہاں آپ مناسب سمجھیں اسے استعمال کیجئے۔ راوی نے بیان کیا کہ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ خوب! یہ تو بڑا ہی آمدنی کا مال ہے۔ یہ تو بہت ہی نفع بخش ہے۔ اور جو بات تم نے کہی میں نے وہ سن لی۔ اور میں مناسب سمجھتا ہوں کہ تم اسے اپنے نزدیکی رشتہ داروں کو دے ڈالو۔ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا۔ یا رسول اللہ! میں ایسا ہی کروں گا۔ چنانچہ انہوں نے اسے اپنے رشتہ داروں اور چچا کے لڑکوں کو دے دیا۔ عبداللہ بن یوسف کے ساتھ اس روایت کی متابعت روح نے کی ہے۔ یحیٰی بن یحیٰی اور اسماعیل نے مالک کے واسطہ سے ( رابح کے بجائے ) رائح نقل کیا ہے۔
تشریح :
اس حدیث سے صاف نکلا کہ اپنے رشتہ داروں پر خرچ کرنا درست ہے۔ یہاں تک کہ بیوی بھی اپنے مفلس خاوند اور مفلس بیٹے پر خیرات کرسکتی ہے۔ اور گویہ صدقہ فرض زکوٰۃ نہ تھا۔ مگر فرض زکوٰۃ کو بھی اس پر قیاس کیاہے۔ بعضوں نے کہا جس کا نفقہ آدمی پر واجب ہوجیسے بیوی کا یا چھوٹے لڑکے کا تو اس کو زکوٰۃ دینا درست نہیں۔ اور چونکہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ زندہ تھے‘ اس لیے ان کے ہوتے ہوئے بچے کا خرچ ماں پر واجب نہ تھا۔ لہٰذا ماں کو اس پر خیرات خرچ کرنا جائز ہوا۔ واللہ اعلم۔ ( وحیدی )
اس حدیث سے صاف نکلا کہ اپنے رشتہ داروں پر خرچ کرنا درست ہے۔ یہاں تک کہ بیوی بھی اپنے مفلس خاوند اور مفلس بیٹے پر خیرات کرسکتی ہے۔ اور گویہ صدقہ فرض زکوٰۃ نہ تھا۔ مگر فرض زکوٰۃ کو بھی اس پر قیاس کیاہے۔ بعضوں نے کہا جس کا نفقہ آدمی پر واجب ہوجیسے بیوی کا یا چھوٹے لڑکے کا تو اس کو زکوٰۃ دینا درست نہیں۔ اور چونکہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ زندہ تھے‘ اس لیے ان کے ہوتے ہوئے بچے کا خرچ ماں پر واجب نہ تھا۔ لہٰذا ماں کو اس پر خیرات خرچ کرنا جائز ہوا۔ واللہ اعلم۔ ( وحیدی )