‌صحيح البخاري - حدیث 1459

كِتَابُ الزَّكَاةِ بَابٌ: لَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسِ ذَوْدٍ صَدَقَةٌ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي صَعْصَعَةَ الْمَازِنِيِّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسَةِ أَوْسُقٍ مِنْ التَّمْرِ صَدَقَةٌ وَلَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسِ أَوَاقٍ مِنْ الْوَرِقِ صَدَقَةٌ وَلَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسِ ذَوْدٍ مِنْ الْإِبِلِ صَدَقَةٌ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 1459

کتاب: زکوٰۃ کے مسائل کا بیان باب: پانچ اونٹوں سے کم میں زکوٰۃ نہیں ہم عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے خبر دی ‘ انہیں محمد بن عبدالرحمن بن ابی صعصعہ مازنی نے ‘ انہیں ان کے باپ نے اور انہیں حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پانچ وسق سے کم کھجوروں میں زکوٰۃ نہیں اور پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکوٰۃ نہیں۔ اسی طرح پانچ اونٹوں سے کم میں زکوٰۃ نہیں ہے۔
تشریح : اس حدیث کے ذیل حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: عن ابی سعید خمس اواق من الورق صدقۃ وہو مطابق للفظ الترجمۃ وکان للمصنف اراد ان یبین بالترجمۃ ماابہم فی لفظ الحدیث اعتماداً علی طریق الاخری واواق بالتنوین وباثبات التحتانیۃ مشدداً ومحففا جمع اوقیۃ بضم الہمزۃ وتشدید التحتانیۃ وحکی الجیانی وقیۃ بحذف الالف وفتح الواو ومقدار الاوقیۃ فی ہذا الحدیث اربعون درہما بالاتفاق والمراد بالدرہم الخالص من الفضۃ سواءکان مضروبا اوغیر مضروب۔ اوسق جمع وسق بفتح الواو ویجوز کسرہا کما حکاہ صاحب المحکم وجمعہ حینئذ اوساق کحمل واحمال وقد وقع کذلک فی روایۃ المسلم وہو ستون صاعا بالاتفاق ووقع فی روایۃ ابن ماجۃ من طریق ابی البختری عن ابی سعید نحو ہذا الحدیث وفیہ والوسق ستون صاعا۔ وقد اجمعوا علی ذلک فی خمسۃ اوسق فمازاد اجمع العلماءعلی اشتراط الحول فی الماشیۃ والنقد دون المعشرات واللہ اعلم ( فتح الباری ) خلاصہ عبارت یہ کہ پانچ اوقیہ چاندی میں زکوٰۃ ہے۔ یہی لفظ باب کے مطابق ہے اور دوسری روایت پر اعتماد کرتے ہوئے لفظ حدیث میں جو ابہام تھا‘ اسے ترجمہ کے ذریعہ بیان کردیا۔ اور لفظ اواق اوقیہ کی جمع ہے جس کی مقدار متفقہ طورپر چالیس درہم ہے۔ درہم سے خالص چاندی کا سکہ مراد ہے جو مضروب ہویا غیر مضروب۔ لفظ اوسق وسق کی جمع ہے اور وہ متفقہ طورپر ساٹھ صاع پر بولا گیا ہے۔ اس پر اجماع ہے کہ عشر کے لیے پانچ وسق کا ہونا ضروری ہے اور جانوروں کے لیے‘ نقدی کے لیے ایک سال کا گزر جانا بھی شرط ہے اس پر علماءکا اجماع ہے۔ اجناس جن سے عشر نکالا جاتا ہے ان کے لیے سال گزرنے کی شرط نہیں ہے۔ حضرت مولانا عبیداللہ صاحب شیخ الحدیث مدظلہ فرماتے ہیں۔ قلت ہذا الحدیث صریح فی ان النصاب شرط لوجوب العشر اونصف العشر فلا تجب الزکوٰۃ فی شئی من الزروع والثمار حتی تبلغ خمسۃ اوسق وہذا مذہب اکثر اہل العلم والصاع اربعۃ امداد والمد رطل وثلث رطل فالصاع خمسۃ ارطال وثلث رطل ذلک بالرطل الذی وزنہ مائۃ درہم وثمانیۃ وعشرون درہما بالدراہم اللتی کل عشرۃ منہا وزن سبعۃ مثاقیل ( مرعاۃ ) یعنی میں کہتا ہوں کہ حدیث ہذا صراحت کے ساتھ بتلا رہی ہے کہ عشریا نصف عشر کے لیے نصاب شرط ہے پس کھیتی اور پھلوں میں کوئی زکوٰۃ فرض نہ ہوگی جب تک وہ پانچ وسق کو نہ پہنچ جائے اور اکثر اہل علم کا یہی مذہب ہے اور ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے۔ اور صاع چار مد کا ہوتا ہے اور مد ایک رطل اور تہائی رطل کا پس صاع کے پانچ اور ثلث رطل ہوئے اور یہ حساب اس رطل سے ہے جس کا وزن ایک سو اٹھائیس درہم کے برابر ہوں اور درہم سے مراد وہ جس کے لیے دس درہم کا وزن سات مثقال کے برابر ہو۔ بعض علمائے احناف ہند نے یہاں کی زمینوں سے عشر کو ساقط قرار دینے کی کوشش کی ہے۔ جو یہاں کی اراضی کو خراجی قرار دیتے ہیں۔ اس بارے میں حضرت مولانا شیخ الحدیث عبیداللہ صاحب مبارکپوری مدظلہ العالی فرماتے ہیں: اختلف اصحاب الفتوی من الحنفیۃ فی اراضی المسلمین فی بلاد الہند فی زمن الا نکلیز وتخبطوا فی ذالک فقال بعضہم لاعشر فیہا لانہا اراضی دارالحرب وقال بعضہم ان اراضی الہند لیست بعشریۃ ولا خراجیۃ بل اراضی الحوز ای اراضی بیت المال واراض المملکۃ والحق عندنا وجوب العشر فی اراضی الہند مطلقا ای علی ای صفۃ کانت فیجب العشراو نصفہ علی المسلم فیما یحصل لہ من الارض اذا بلغ النصاب سواءکانت الارض ملکالہ اولغیرہ زرع فیہا علی سبیل الا جارۃ اوالعاریۃ اوالمزارعۃ لان العشر فی الحب والزرع والعبرۃ لمن یملکہ فیجب الزکوٰۃ فیہ علی مالکہ المسلم ولیس من مونۃ الارض فلایبحث عن صفتہا والفربیۃ التی تاخذہا المملکۃ من اصحاب المزارع فی الہند لیست خراجا شرعیا ولا مما یسقط فریضۃ العشر کما لا یخفی وارجح الی المغنی ( ص 768/2 ) ( مرعاۃ‘ ج:3 ص: 38 ) یعنی انگریزی دور میں ہندی مسلمانوں کی اراضیات کے متعلق علمائے احناف نے جو صاحبان فتویٰ تھے‘ بعض نے یہ خبط اختیار کیا کہ ان زمینوں کی پیداوار میں عشر نہیں ہے‘ اس لیے کہ یہ اراضی دارالحرب ہیں۔ بعض نے کہا کہ یہ زمینیں نہ تو عشری ہیں نہ خراجی بلکہ یہ حکومت کی زمینیں ہیں اور ہمارے نزدیک امرحق یہ ہے کہ اراضی ہند میں مطلقاً پیداوار نصاب پر مسلمانوں کے لیے عشر واجب ہے‘ چاہے وہ زمین ان کی ملک ہو یا غیر کی ہو وہ کاشتکار ہوں یا ٹھیکیدار ہوں بہر حال اناج کی پیداوار جو نصاب کو پہنچ جائے عشرو اجب ہے اور اس بارے میں زمین پر اخراجات اور سرکاری مالیانہ وغیرہ کا کوئی اعتبار نہیں کیا جائے گا کیونکہ ہندوستان میں سرکار جو محصول لینی ہے‘ وہ خراج شرعی نہیں ہے اور نہ اس سے عشر ساقط ہوسکتا ہے۔ اس حدیث کے ذیل حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: عن ابی سعید خمس اواق من الورق صدقۃ وہو مطابق للفظ الترجمۃ وکان للمصنف اراد ان یبین بالترجمۃ ماابہم فی لفظ الحدیث اعتماداً علی طریق الاخری واواق بالتنوین وباثبات التحتانیۃ مشدداً ومحففا جمع اوقیۃ بضم الہمزۃ وتشدید التحتانیۃ وحکی الجیانی وقیۃ بحذف الالف وفتح الواو ومقدار الاوقیۃ فی ہذا الحدیث اربعون درہما بالاتفاق والمراد بالدرہم الخالص من الفضۃ سواءکان مضروبا اوغیر مضروب۔ اوسق جمع وسق بفتح الواو ویجوز کسرہا کما حکاہ صاحب المحکم وجمعہ حینئذ اوساق کحمل واحمال وقد وقع کذلک فی روایۃ المسلم وہو ستون صاعا بالاتفاق ووقع فی روایۃ ابن ماجۃ من طریق ابی البختری عن ابی سعید نحو ہذا الحدیث وفیہ والوسق ستون صاعا۔ وقد اجمعوا علی ذلک فی خمسۃ اوسق فمازاد اجمع العلماءعلی اشتراط الحول فی الماشیۃ والنقد دون المعشرات واللہ اعلم ( فتح الباری ) خلاصہ عبارت یہ کہ پانچ اوقیہ چاندی میں زکوٰۃ ہے۔ یہی لفظ باب کے مطابق ہے اور دوسری روایت پر اعتماد کرتے ہوئے لفظ حدیث میں جو ابہام تھا‘ اسے ترجمہ کے ذریعہ بیان کردیا۔ اور لفظ اواق اوقیہ کی جمع ہے جس کی مقدار متفقہ طورپر چالیس درہم ہے۔ درہم سے خالص چاندی کا سکہ مراد ہے جو مضروب ہویا غیر مضروب۔ لفظ اوسق وسق کی جمع ہے اور وہ متفقہ طورپر ساٹھ صاع پر بولا گیا ہے۔ اس پر اجماع ہے کہ عشر کے لیے پانچ وسق کا ہونا ضروری ہے اور جانوروں کے لیے‘ نقدی کے لیے ایک سال کا گزر جانا بھی شرط ہے اس پر علماءکا اجماع ہے۔ اجناس جن سے عشر نکالا جاتا ہے ان کے لیے سال گزرنے کی شرط نہیں ہے۔ حضرت مولانا عبیداللہ صاحب شیخ الحدیث مدظلہ فرماتے ہیں۔ قلت ہذا الحدیث صریح فی ان النصاب شرط لوجوب العشر اونصف العشر فلا تجب الزکوٰۃ فی شئی من الزروع والثمار حتی تبلغ خمسۃ اوسق وہذا مذہب اکثر اہل العلم والصاع اربعۃ امداد والمد رطل وثلث رطل فالصاع خمسۃ ارطال وثلث رطل ذلک بالرطل الذی وزنہ مائۃ درہم وثمانیۃ وعشرون درہما بالدراہم اللتی کل عشرۃ منہا وزن سبعۃ مثاقیل ( مرعاۃ ) یعنی میں کہتا ہوں کہ حدیث ہذا صراحت کے ساتھ بتلا رہی ہے کہ عشریا نصف عشر کے لیے نصاب شرط ہے پس کھیتی اور پھلوں میں کوئی زکوٰۃ فرض نہ ہوگی جب تک وہ پانچ وسق کو نہ پہنچ جائے اور اکثر اہل علم کا یہی مذہب ہے اور ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے۔ اور صاع چار مد کا ہوتا ہے اور مد ایک رطل اور تہائی رطل کا پس صاع کے پانچ اور ثلث رطل ہوئے اور یہ حساب اس رطل سے ہے جس کا وزن ایک سو اٹھائیس درہم کے برابر ہوں اور درہم سے مراد وہ جس کے لیے دس درہم کا وزن سات مثقال کے برابر ہو۔ بعض علمائے احناف ہند نے یہاں کی زمینوں سے عشر کو ساقط قرار دینے کی کوشش کی ہے۔ جو یہاں کی اراضی کو خراجی قرار دیتے ہیں۔ اس بارے میں حضرت مولانا شیخ الحدیث عبیداللہ صاحب مبارکپوری مدظلہ العالی فرماتے ہیں: اختلف اصحاب الفتوی من الحنفیۃ فی اراضی المسلمین فی بلاد الہند فی زمن الا نکلیز وتخبطوا فی ذالک فقال بعضہم لاعشر فیہا لانہا اراضی دارالحرب وقال بعضہم ان اراضی الہند لیست بعشریۃ ولا خراجیۃ بل اراضی الحوز ای اراضی بیت المال واراض المملکۃ والحق عندنا وجوب العشر فی اراضی الہند مطلقا ای علی ای صفۃ کانت فیجب العشراو نصفہ علی المسلم فیما یحصل لہ من الارض اذا بلغ النصاب سواءکانت الارض ملکالہ اولغیرہ زرع فیہا علی سبیل الا جارۃ اوالعاریۃ اوالمزارعۃ لان العشر فی الحب والزرع والعبرۃ لمن یملکہ فیجب الزکوٰۃ فیہ علی مالکہ المسلم ولیس من مونۃ الارض فلایبحث عن صفتہا والفربیۃ التی تاخذہا المملکۃ من اصحاب المزارع فی الہند لیست خراجا شرعیا ولا مما یسقط فریضۃ العشر کما لا یخفی وارجح الی المغنی ( ص 768/2 ) ( مرعاۃ‘ ج:3 ص: 38 ) یعنی انگریزی دور میں ہندی مسلمانوں کی اراضیات کے متعلق علمائے احناف نے جو صاحبان فتویٰ تھے‘ بعض نے یہ خبط اختیار کیا کہ ان زمینوں کی پیداوار میں عشر نہیں ہے‘ اس لیے کہ یہ اراضی دارالحرب ہیں۔ بعض نے کہا کہ یہ زمینیں نہ تو عشری ہیں نہ خراجی بلکہ یہ حکومت کی زمینیں ہیں اور ہمارے نزدیک امرحق یہ ہے کہ اراضی ہند میں مطلقاً پیداوار نصاب پر مسلمانوں کے لیے عشر واجب ہے‘ چاہے وہ زمین ان کی ملک ہو یا غیر کی ہو وہ کاشتکار ہوں یا ٹھیکیدار ہوں بہر حال اناج کی پیداوار جو نصاب کو پہنچ جائے عشرو اجب ہے اور اس بارے میں زمین پر اخراجات اور سرکاری مالیانہ وغیرہ کا کوئی اعتبار نہیں کیا جائے گا کیونکہ ہندوستان میں سرکار جو محصول لینی ہے‘ وہ خراج شرعی نہیں ہے اور نہ اس سے عشر ساقط ہوسکتا ہے۔