كِتَابُ الزَّكَاةِ بَابُ لاَ تُؤْخَذُ كَرَائِمُ أَمْوَالِ النَّاسِ فِي الصَّدَقَةِ صحيح حَدَّثَنَا أُمَيَّةُ بْنُ بِسْطَامٍ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْقَاسِمِ عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَيْفِيٍّ عَنْ أَبِي مَعْبَدٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا بَعَثَ مُعَاذًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى الْيَمَنِ قَالَ إِنَّكَ تَقْدَمُ عَلَى قَوْمٍ أَهْلِ كِتَابٍ فَلْيَكُنْ أَوَّلَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ عِبَادَةُ اللَّهِ فَإِذَا عَرَفُوا اللَّهَ فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّ اللَّهَ قَدْ فَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي يَوْمِهِمْ وَلَيْلَتِهِمْ فَإِذَا فَعَلُوا فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّ اللَّهَ فَرَضَ عَلَيْهِمْ زَكَاةً مِنْ أَمْوَالِهِمْ وَتُرَدُّ عَلَى فُقَرَائِهِمْ فَإِذَا أَطَاعُوا بِهَا فَخُذْ مِنْهُمْ وَتَوَقَّ كَرَائِمَ أَمْوَالِ النَّاسِ
کتاب: زکوٰۃ کے مسائل کا بیان
باب: زکوٰۃ میں لوگوں کے عمدہ اور چھٹے
ہم سے امیہ بن بسطام نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے زید بن زریع نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے روح بن قاسم نے بیان کیا ‘ ان سے اسماعیل بن امیہ نے ‘ ان سے یحیٰی بن عبداللہ بن صیفی نے ‘ ان سے ابومعبد نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجا تو ان سے فرمایا کہ دیکھو! تم ایک ایسی قوم کے پاس جارہے ہو جو اہل کتاب ( عیسائی یہودی ) ہیں۔ اس لیے سب سے پہلے انہیں اللہ کی عبادت کی دعوت دینا۔ جب وہ اللہ تعالیٰ کو پہچان لیں ( یعنی اسلام قبول کرلیں ) تو انہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ جب وہ اسے بھی ادا کریں تو انہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر زکوٰۃ فرض قرار دی ہے جو ان کے سرمایہ داروں سے لی جائے گی ( جو صاحب نصاب ہوں گے ) اور انہیں کے فقیروں میں تقسیم کردی جائے گی۔ جب وہ اسے بھی مان لیں تو ان سے زکوٰۃ وصول کر۔ البتہ ان کی عمدہ چیزیں ( زکوٰۃ کے طورپر لینے سے ) پرہیز کرنا۔
تشریح :
ان کے فقیروں میں تقسیم کا مطلب یہ کہ ان ہی کے ملک کے فقیروں کو۔ اس معنی کے تحت ایک ملک کو زکوٰۃ دوسرے ملک کے فقیروں کو بھیجنا نا جائز قرار دیا گیا ہے۔ مگر جمہورعلماءکہتے ہیں کہ مراد مسلمان فقراءہیں خواہ وہ کہیں ہوں اور کسی ملک کے ہوں۔ اس معنی کے تحت زکوٰۃ کا دوسرے ملک میں بھیجنا درست رکھا گیا ہے۔ حدیث اور باب کی مطابقت ظاہر ہے۔ حضرت مولانا عبیداللہ صاحب مدظلہ فرماتے ہیں۔ وقال شیخنا فی شرح الترمذی والظاہر عندی عدم النقل الا اذا فقد المستحقون لہا اوتکون فی النقل مصلحۃ انفع واہم عن عدمہ واللہ تعالیٰ اعلم ( مرعاۃ )
یعنی ہمارے شیخ مولانا عبدالرحمن شرح ترمذی میں فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک ظاہر یہی ہے کہ صرف اسی صورت میں وہاں سے زکوٰۃ دوسری جگہ دی جائے جب وہاں مستحق لوگ نہ ہوں یا وہاں سے نقل کرنے میں کوئی مصلحت ہو یا بہت ہی اہم ہو اور زیادہ سے زیادہ نفع بخش ہو کہ وہ نہ بھیجنے کی صورت میں حاصل نہ ہو۔ ایسی حالت میں دوسری جگہ میں زکوٰۃ نقل کی جاسکتی ہے۔
ان کے فقیروں میں تقسیم کا مطلب یہ کہ ان ہی کے ملک کے فقیروں کو۔ اس معنی کے تحت ایک ملک کو زکوٰۃ دوسرے ملک کے فقیروں کو بھیجنا نا جائز قرار دیا گیا ہے۔ مگر جمہورعلماءکہتے ہیں کہ مراد مسلمان فقراءہیں خواہ وہ کہیں ہوں اور کسی ملک کے ہوں۔ اس معنی کے تحت زکوٰۃ کا دوسرے ملک میں بھیجنا درست رکھا گیا ہے۔ حدیث اور باب کی مطابقت ظاہر ہے۔ حضرت مولانا عبیداللہ صاحب مدظلہ فرماتے ہیں۔ وقال شیخنا فی شرح الترمذی والظاہر عندی عدم النقل الا اذا فقد المستحقون لہا اوتکون فی النقل مصلحۃ انفع واہم عن عدمہ واللہ تعالیٰ اعلم ( مرعاۃ )
یعنی ہمارے شیخ مولانا عبدالرحمن شرح ترمذی میں فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک ظاہر یہی ہے کہ صرف اسی صورت میں وہاں سے زکوٰۃ دوسری جگہ دی جائے جب وہاں مستحق لوگ نہ ہوں یا وہاں سے نقل کرنے میں کوئی مصلحت ہو یا بہت ہی اہم ہو اور زیادہ سے زیادہ نفع بخش ہو کہ وہ نہ بھیجنے کی صورت میں حاصل نہ ہو۔ ایسی حالت میں دوسری جگہ میں زکوٰۃ نقل کی جاسکتی ہے۔