كِتَابُ الزَّكَاةِ بَابُ زَكَاةِ الوَرِقِ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى الْمَازِنِيِّ عَنْ أَبِيهِ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسِ ذَوْدٍ صَدَقَةٌ مِنْ الْإِبِلِ وَلَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسِ أَوَاقٍ صَدَقَةٌ وَلَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسَةِ أَوْسُقٍ صَدَقَةٌ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ قَالَ حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ قَالَ أَخْبَرَنِي عَمْرٌو سَمِعَ أَبَاهُ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهَذَا
کتاب: زکوٰۃ کے مسائل کا بیان
باب: چاندی کی زکوٰۃ کا بیان
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے خبر دی ‘ انہیں عمرو بن یحیٰی مازنی نے ‘ انہیں ان کے باپ یحیٰی نے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پانچ اونٹ سے کم میں زکوٰۃ نہیں اور پانچ اوقیہ سے کم ( چاندی ) میں زکوٰۃ نہیں۔ اسی طرح پانچ وسق سے کم ( غلہ ) میں زکوٰۃ نہیں۔ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے عبدالوہاب ثقفی نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے یحیٰی بن سعید نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ مجھے عمرو بن یحیٰی نے خبر دی ‘ انہوں نے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے سنا اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی حدیث کوسنا۔
تشریح :
یہ حدیث ابھی اوپر باب ماادی زکوتہ فلیس بکنز میں گزرچکی ہے اور وسق اور اوقیہ کی مقدار بھی وہیں مذکور ہوچکی ہے۔ پانچ اوقیہ دو سودرم کے ہوتے ہیں۔ ہر درم چھ دانق کا۔ ہر دانق 8 جو اور2/5 جو کا۔ تودرم 50 جو اور 2/5 جو کا ہوا۔ بعضوں نے کہا کہ درم چار ہزار اور دو سو رائی کے دانوں کا ہوتا ہے۔ اور دینار ایک درم اور 3/7 درم کا یا چھ ہزار رائی کے دانوں کا۔ ایک قیراط 3/8 دانق کا ہوتا ہے۔
مولانا قاضی ثناءاللہ پانی پتی مرحوم فرماتے ہیں کہ سونے کا نصاب بیس مثقال ہے جس کا وزن ساڑھے سات تولہ ہوتا ہے اور چاندی کا نصاب دو سودرہم ہے جن کے سکہ رائج الوقت دہلی سے 56 روپے کا بنتے ہیں۔
وقال شیخ مشائخنا العلامۃ الشیخ عبداللہ الغازیفوری فی رسالتہ ما معربہ نصاب الفضۃ مائتا درہم ای خسمون واثنتان تولجۃ ونصف تولجۃ وہی تساوی ستین من الروبیۃ الانکلیزیہ المنافضۃ فی الہند فی زمن الانکلیز التی تکون بقدر عشر ماہجۃ ونصف ماہجۃ وقال الشیخ بحرالعلوم اللکنوی الحنفی فی رسائل الارکان الاربعہ ص 178 وزن مائتی درہم وزن خمس وخمسین روبیۃ وکل روبیۃ احد عشر ماشج ( مرعاۃ جلد 3ص 41 )
ہمارے شیخ المشائخ علامہ حافظ عبداللہ غازی پوری فرماتے ہیں کہ چاندی کا نصاب دو سودرہم ہیں یعنی ساڑھے باون تولہ اور یہ انگریزی دور کے مروجہ چاندی کے روپے سے ساٹھ روپوں کے برابر ہوتی ہے۔ جوروپیہ تقریباً ساڑھے گیارہ ماشہ کا مروج تھا۔ مولانا بحر العلوم لکھنؤی فرماتے ہیں کہ دو سودرہم وزن چاندی 55 روپے کے برابر ہے اور ہر روپیہ گیارہ ماشہ کا ہوتا ہے۔ ہمارے زمانہ میں چاندی کا نصاب اوزان ہندیہ کی مناسبت سے ساڑھے باون تولہ چاندی ہے۔
خلاصہ یہ کہ غلہ میں پانچ وسق سے کم پر عشر نہیں ہے اور پانچ وسق اکیس من ساڑھے سینتیس سیروزن 80 تولہ کے سیر کے حساب سے ہوتا ہے۔ کیونکہ ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے اور صاع 234 تولے ( 6 تولہ کم 3 سیر ) کا ہوتا ہے۔ پس ایک وسق چار من ساڑھے پندرہ سیر کا ہوا۔
اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے اس حساب سے ساڑھے سات تولہ سونا پر چالیسواں حصہ زکوٰۃ فرض ہے اور چاندی کا نصاب ساڑھے باون تولہ ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
یہ حدیث ابھی اوپر باب ماادی زکوتہ فلیس بکنز میں گزرچکی ہے اور وسق اور اوقیہ کی مقدار بھی وہیں مذکور ہوچکی ہے۔ پانچ اوقیہ دو سودرم کے ہوتے ہیں۔ ہر درم چھ دانق کا۔ ہر دانق 8 جو اور2/5 جو کا۔ تودرم 50 جو اور 2/5 جو کا ہوا۔ بعضوں نے کہا کہ درم چار ہزار اور دو سو رائی کے دانوں کا ہوتا ہے۔ اور دینار ایک درم اور 3/7 درم کا یا چھ ہزار رائی کے دانوں کا۔ ایک قیراط 3/8 دانق کا ہوتا ہے۔
مولانا قاضی ثناءاللہ پانی پتی مرحوم فرماتے ہیں کہ سونے کا نصاب بیس مثقال ہے جس کا وزن ساڑھے سات تولہ ہوتا ہے اور چاندی کا نصاب دو سودرہم ہے جن کے سکہ رائج الوقت دہلی سے 56 روپے کا بنتے ہیں۔
وقال شیخ مشائخنا العلامۃ الشیخ عبداللہ الغازیفوری فی رسالتہ ما معربہ نصاب الفضۃ مائتا درہم ای خسمون واثنتان تولجۃ ونصف تولجۃ وہی تساوی ستین من الروبیۃ الانکلیزیہ المنافضۃ فی الہند فی زمن الانکلیز التی تکون بقدر عشر ماہجۃ ونصف ماہجۃ وقال الشیخ بحرالعلوم اللکنوی الحنفی فی رسائل الارکان الاربعہ ص 178 وزن مائتی درہم وزن خمس وخمسین روبیۃ وکل روبیۃ احد عشر ماشج ( مرعاۃ جلد 3ص 41 )
ہمارے شیخ المشائخ علامہ حافظ عبداللہ غازی پوری فرماتے ہیں کہ چاندی کا نصاب دو سودرہم ہیں یعنی ساڑھے باون تولہ اور یہ انگریزی دور کے مروجہ چاندی کے روپے سے ساٹھ روپوں کے برابر ہوتی ہے۔ جوروپیہ تقریباً ساڑھے گیارہ ماشہ کا مروج تھا۔ مولانا بحر العلوم لکھنؤی فرماتے ہیں کہ دو سودرہم وزن چاندی 55 روپے کے برابر ہے اور ہر روپیہ گیارہ ماشہ کا ہوتا ہے۔ ہمارے زمانہ میں چاندی کا نصاب اوزان ہندیہ کی مناسبت سے ساڑھے باون تولہ چاندی ہے۔
خلاصہ یہ کہ غلہ میں پانچ وسق سے کم پر عشر نہیں ہے اور پانچ وسق اکیس من ساڑھے سینتیس سیروزن 80 تولہ کے سیر کے حساب سے ہوتا ہے۔ کیونکہ ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے اور صاع 234 تولے ( 6 تولہ کم 3 سیر ) کا ہوتا ہے۔ پس ایک وسق چار من ساڑھے پندرہ سیر کا ہوا۔
اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے اس حساب سے ساڑھے سات تولہ سونا پر چالیسواں حصہ زکوٰۃ فرض ہے اور چاندی کا نصاب ساڑھے باون تولہ ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔