‌صحيح البخاري - حدیث 1446

كِتَابُ الزَّكَاةِ بَابٌ: قَدْرُ كَمْ يُعْطَى مِنَ الزَّكَاةِ وَالصَّدَقَةِ، وَمَنْ أَعْطَى شَاةً صحيح حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ حَدَّثَنَا أَبُو شِهَابٍ عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ بُعِثَ إِلَى نُسَيْبَةَ الْأَنْصَارِيَّةِ بِشَاةٍ فَأَرْسَلَتْ إِلَى عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا مِنْهَا فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَكُمْ شَيْءٌ فَقُلْتُ لَا إِلَّا مَا أَرْسَلَتْ بِهِ نُسَيْبَةُ مِنْ تِلْكَ الشَّاةِ فَقَالَ هَاتِ فَقَدْ بَلَغَتْ مَحِلَّهَا

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 1446

کتاب: زکوٰۃ کے مسائل کا بیان باب: زکوٰۃ یا صدقہ میں کتنا مال دینا درست ہے؟ ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے ابوشہاب نے بیان کیا ‘ ان سے خالد حذاءنے ‘ ان سے حفصہ بنت سیرین نے اور ان سے ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے کہ نسیبہ نامی ایک انصاری عورت کے ہاں کسی نے ایک بکری بھیجی ( یہ نسیبہ نامی انصاری عورت خود ام عطیہ ہی کا نام ہے )۔ اس بکری کا گوشت انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے یہاں بھی بھیج دیا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت کیا کہ تمہارے پاس کھانے کو کوئی چیز ہے؟ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اور تو کوئی چیز نہیں البتہ اس بکری کا گوشت جو نسیبہ نے بھیجا تھا ‘ وہ موجود ہے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہی لاؤ اب اس کا کھانا درست ہوگیا۔
تشریح : باب کا مطلب یوں ثابت ہوا کہ پوری بکری بطور صدقہ نسیبہ کو بھیجی گئی۔ اب ام عطیہ نے جو تھوڑا گوشت اس بکری میں سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو تحفہ کے طورپر بھیجا۔ اس سے یہ نکلا کہ تھوڑا گوشت بھی صدقہ دے سکتے ہیں کیونکہ ام عطیہ کا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بھیجنا گو صدقہ نہ تھا مگر ہدیہ تھا۔ پس صدقہ کو اس پر قیاس کیا۔ ابن منیر نے کہا کہ امام بخاری نے یہ باب لاکر ان لوگوں کا ردک کیا جو زکوٰۃ میں ایک فقیر کو اتنادے دینا مکروہ سمجھتے ہیں کہ وہ صاحب نصاب ہوجائے۔ امام ابو حنیفہ سے ایسا ہی منقول ہے لیکن امام محمد نے کہا اس میں کوئی قباحت نہیں۔ ( وحیدی ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بکری کے گوشت کو اس لیے کھانا حلال قرار دیا کہ جب فقیر ایسے مال سے تحفہ کے طورپر کچھ بھیج دے تو وہ درست ہے۔ کیونکہ ملک کے بدل جانے سے حکم بھی بدل جاتا ہے۔ یہی مضمون بریرہ کی حدیث میں بھی وارد ہے۔ جب بریرہ نے صدقہ کا گوشت عائشہ رضی اللہ عنہا کو تحفہ بھیجا تھا تو آپ نے فرمایا تھا۔ ہولہا صدقۃ ولنا ہدیۃ ( وحیدی ) باب کا مطلب یوں ثابت ہوا کہ پوری بکری بطور صدقہ نسیبہ کو بھیجی گئی۔ اب ام عطیہ نے جو تھوڑا گوشت اس بکری میں سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو تحفہ کے طورپر بھیجا۔ اس سے یہ نکلا کہ تھوڑا گوشت بھی صدقہ دے سکتے ہیں کیونکہ ام عطیہ کا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بھیجنا گو صدقہ نہ تھا مگر ہدیہ تھا۔ پس صدقہ کو اس پر قیاس کیا۔ ابن منیر نے کہا کہ امام بخاری نے یہ باب لاکر ان لوگوں کا ردک کیا جو زکوٰۃ میں ایک فقیر کو اتنادے دینا مکروہ سمجھتے ہیں کہ وہ صاحب نصاب ہوجائے۔ امام ابو حنیفہ سے ایسا ہی منقول ہے لیکن امام محمد نے کہا اس میں کوئی قباحت نہیں۔ ( وحیدی ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بکری کے گوشت کو اس لیے کھانا حلال قرار دیا کہ جب فقیر ایسے مال سے تحفہ کے طورپر کچھ بھیج دے تو وہ درست ہے۔ کیونکہ ملک کے بدل جانے سے حکم بھی بدل جاتا ہے۔ یہی مضمون بریرہ کی حدیث میں بھی وارد ہے۔ جب بریرہ نے صدقہ کا گوشت عائشہ رضی اللہ عنہا کو تحفہ بھیجا تھا تو آپ نے فرمایا تھا۔ ہولہا صدقۃ ولنا ہدیۃ ( وحیدی )