كِتَابُ الزَّكَاةِ بَابٌ: عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ صَدَقَةٌ، فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَلْيَعْمَلْ بِالْمَعْرُوفِ صحيح حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ صَدَقَةٌ فَقَالُوا يَا نَبِيَّ اللَّهِ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ قَالَ يَعْمَلُ بِيَدِهِ فَيَنْفَعُ نَفْسَهُ وَيَتَصَدَّقُ قَالُوا فَإِنْ لَمْ يَجِدْ قَالَ يُعِينُ ذَا الْحَاجَةِ الْمَلْهُوفَ قَالُوا فَإِنْ لَمْ يَجِدْ قَالَ فَلْيَعْمَلْ بِالْمَعْرُوفِ وَلْيُمْسِكْ عَنْ الشَّرِّ فَإِنَّهَا لَهُ صَدَقَةٌ
کتاب: زکوٰۃ کے مسائل کا بیان
باب: ہر مسلمان پر صدقہ کرنا ضروری ہے
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے سعید بن ابی بردہ نے بیان کیا ‘ ان سے ان کے باپ ابوبردہ نے ان کے دادا ابوموسیٰ اشعری سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر مسلمان پر صدقہ کرنا ضروری ہے۔ لوگوں نے پوچھا اے اللہ کے نبی! اگر کسی کے پاس کچھ نہ ہو؟ آپ نے فرمایا کہ پھر اپنے ہاتھ سے کچھ کماکر خود کو بھی نفع پہنچائے اور صدقہ بھی کرے۔ لوگوں نے کہا اگر اس کی طاقت نہ ہو؟ فرمایا کہ پھر کسی حاجت مند فریادی کی مدد کرے۔ لوگوں نے کہا اگر اس کی بھی سکت نہ ہو۔ فرمایا پھر اچھی بات پر عمل کرے اور بری باتوں سے بام رہے۔ اس کا یہی صدقہ ہے۔
تشریح :
امام بخاری نے ادب میں جو روایت نکالی ہے اس میں یوں ہے کہ اچھی یا نیک بات کا حکم کرے۔ ابوداؤد طیالسی نے اتنا اور زیادہ کیا اور بری بات سے منع کرے۔ معلوم ہوا جو شخص نادار ہو اس کے لیے وعظ ونصیحت میں صدقہ کا ثواب ملتا ہے۔ ( وحیدی )
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: قال الشیخ ابو محمد بن ابی جمرۃ نفع اللہ بہ ترتیب ہذا الحدیث انہ ندب الی الصدقۃ وعند العجز عنہا ندب الی مایقرب منہا او یقوم مقامہا وہو العمل والانتفاع وعند العجز عن ذلک ندب الی مایقوم مقامہ وہو الا غاثۃ وعند عدم ذلک ندب الی فعل المعروف ای من سوی ماتقدم کاماطۃ الاذی وعند عدم ذلک ندب الی الصلوٰۃ فان لم یطق فترک الشر وذلک آخر المراتب قال ومعنی الشرہہنا مامنع الشرع ففیہ تسلیۃ للعاجز عن فعل المندوبات اذا کان عجزہ عن ذالک عن غیر اختیار ( فتح الباری )
مختصر یہ کہ امام بخاری نے اس حدیث کو لاکر یہاں درجہ بدرجہ صدقہ کرنے کی ترغیب دلائی ہے۔ جب مالی صدقہ کی توفیق نہ ہوتو جو بھی کام اس کے قائم مقام ہوسکے وہی صدقہ ہے۔ مثلاً اچھے کام کرنا اور دوسروں کو اپنی ذات سے نفع پہنچانا‘ جب اس کی بھی توفیق نہ ہوتو کسی مصیبت زدہ کی فریاد رسی کردینا اور یہ بھی نہ ہوسکے تو کوئی اور نیک کام کردینا مثلاً یہ کہ راستہ میں سے تکلیف دینے والی چیزوں کو دور کردیا جائے۔ پھر نماز کی طرف رغبت دلائی کہ یہ بھی بہترین کام ہے۔ آخری مرتبہ یہ کہ برائی کو ترک کردینا جسے شریعت نے منع کیا ہے۔ یہ بھی ثواب کے کام ہیں اور اس میں اس شخص کے لیے تسلی دلانا ہے جو افعال خیر سے بالکل عاجز ہو۔ ارشاد باری ہے وَمَا یَفعَلُوا مِن خَیرٍ فَلَن یُّکفُرُوہُ ( آل عمران: 115 ) لوگ جو کچھ بھی نیک کام کرتے ہیں وہ ضائع نہیں جاتا۔ بلکہ اس کا بدلہ کسی نہ کسی شکل میں ضرور ضرور ملتا ہے۔ قدرت کا یہی قانون ہے۔ فَمَن یَّعمَل مِثقَالَ ذَرَّۃٍ خَیرًا یَّرَہ¾ وَمَن یَّعمَل مِثقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّایَّرَہ¾ ( الزلزال: 8,7 ) جو ایک ذرہ برابر خیر کرے گا وہ اسے بھی دیکھ لے گا اور جو ذرہ برابر شرکرے گا وہ اسے بھی دیکھ لے گا۔
از مکافات غافل مشو
گندم از گندم بروید جو زجو
امام بخاری نے ادب میں جو روایت نکالی ہے اس میں یوں ہے کہ اچھی یا نیک بات کا حکم کرے۔ ابوداؤد طیالسی نے اتنا اور زیادہ کیا اور بری بات سے منع کرے۔ معلوم ہوا جو شخص نادار ہو اس کے لیے وعظ ونصیحت میں صدقہ کا ثواب ملتا ہے۔ ( وحیدی )
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: قال الشیخ ابو محمد بن ابی جمرۃ نفع اللہ بہ ترتیب ہذا الحدیث انہ ندب الی الصدقۃ وعند العجز عنہا ندب الی مایقرب منہا او یقوم مقامہا وہو العمل والانتفاع وعند العجز عن ذلک ندب الی مایقوم مقامہ وہو الا غاثۃ وعند عدم ذلک ندب الی فعل المعروف ای من سوی ماتقدم کاماطۃ الاذی وعند عدم ذلک ندب الی الصلوٰۃ فان لم یطق فترک الشر وذلک آخر المراتب قال ومعنی الشرہہنا مامنع الشرع ففیہ تسلیۃ للعاجز عن فعل المندوبات اذا کان عجزہ عن ذالک عن غیر اختیار ( فتح الباری )
مختصر یہ کہ امام بخاری نے اس حدیث کو لاکر یہاں درجہ بدرجہ صدقہ کرنے کی ترغیب دلائی ہے۔ جب مالی صدقہ کی توفیق نہ ہوتو جو بھی کام اس کے قائم مقام ہوسکے وہی صدقہ ہے۔ مثلاً اچھے کام کرنا اور دوسروں کو اپنی ذات سے نفع پہنچانا‘ جب اس کی بھی توفیق نہ ہوتو کسی مصیبت زدہ کی فریاد رسی کردینا اور یہ بھی نہ ہوسکے تو کوئی اور نیک کام کردینا مثلاً یہ کہ راستہ میں سے تکلیف دینے والی چیزوں کو دور کردیا جائے۔ پھر نماز کی طرف رغبت دلائی کہ یہ بھی بہترین کام ہے۔ آخری مرتبہ یہ کہ برائی کو ترک کردینا جسے شریعت نے منع کیا ہے۔ یہ بھی ثواب کے کام ہیں اور اس میں اس شخص کے لیے تسلی دلانا ہے جو افعال خیر سے بالکل عاجز ہو۔ ارشاد باری ہے وَمَا یَفعَلُوا مِن خَیرٍ فَلَن یُّکفُرُوہُ ( آل عمران: 115 ) لوگ جو کچھ بھی نیک کام کرتے ہیں وہ ضائع نہیں جاتا۔ بلکہ اس کا بدلہ کسی نہ کسی شکل میں ضرور ضرور ملتا ہے۔ قدرت کا یہی قانون ہے۔ فَمَن یَّعمَل مِثقَالَ ذَرَّۃٍ خَیرًا یَّرَہ¾ وَمَن یَّعمَل مِثقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّایَّرَہ¾ ( الزلزال: 8,7 ) جو ایک ذرہ برابر خیر کرے گا وہ اسے بھی دیکھ لے گا اور جو ذرہ برابر شرکرے گا وہ اسے بھی دیکھ لے گا۔
از مکافات غافل مشو
گندم از گندم بروید جو زجو