كِتَابُ الزَّكَاةِ بَابُ الصَّدَقَةُ تُكَفِّرُ الخَطِيئَةَ صحيح حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ حُذَيْفَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَيُّكُمْ يَحْفَظُ حَدِيثَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْفِتْنَةِ قَالَ قُلْتُ أَنَا أَحْفَظُهُ كَمَا قَالَ قَالَ إِنَّكَ عَلَيْهِ لَجَرِيءٌ فَكَيْفَ قَالَ قُلْتُ فِتْنَةُ الرَّجُلِ فِي أَهْلِهِ وَوَلَدِهِ وَجَارِهِ تُكَفِّرُهَا الصَّلَاةُ وَالصَّدَقَةُ وَالْمَعْرُوفُ قَالَ سُلَيْمَانُ قَدْ كَانَ يَقُولُ الصَّلَاةُ وَالصَّدَقَةُ وَالْأَمْرُ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْيُ عَنْ الْمُنْكَرِ قَالَ لَيْسَ هَذِهِ أُرِيدُ وَلَكِنِّي أُرِيدُ الَّتِي تَمُوجُ كَمَوْجِ الْبَحْرِ قَالَ قُلْتُ لَيْسَ عَلَيْكَ بِهَا يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ بَأْسٌ بَيْنَكَ وَبَيْنَهَا بَابٌ مُغْلَقٌ قَالَ فَيُكْسَرُ الْبَابُ أَوْ يُفْتَحُ قَالَ قُلْتُ لَا بَلْ يُكْسَرُ قَالَ فَإِنَّهُ إِذَا كُسِرَ لَمْ يُغْلَقْ أَبَدًا قَالَ قُلْتُ أَجَلْ فَهِبْنَا أَنْ نَسْأَلَهُ مَنْ الْبَابُ فَقُلْنَا لِمَسْرُوقٍ سَلْهُ قَالَ فَسَأَلَهُ فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قُلْنَا فَعَلِمَ عُمَرُ مَنْ تَعْنِي قَالَ نَعَمْ كَمَا أَنَّ دُونَ غَدٍ لَيْلَةً وَذَلِكَ أَنِّي حَدَّثْتُهُ حَدِيثًا لَيْسَ بِالْأَغَالِيطِ
کتاب: زکوٰۃ کے مسائل کا بیان
باب: صدقہ سے گناہ معاف ہوجاتے ہیں
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے جریر نے اعمش سے بیان کیا‘ ان سے ابووائل نے‘ انہوں نے حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ فتنہ سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث آپ لوگوں میں کس کو یاد ہے؟ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے کہا میں اس طرح یاد رکھتا ہوں جس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بیان فرمایا تھا۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تمہیں اس کے بیان پر جرات ہے۔ اچھا تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فتنوں کے بارے میں کیا فرمایا تھا؟ میں نے کہا کہ ( آپ نے فرمایا تھا ) انسان کی آزمائش ( فتنہ ) اس کے خاندان‘ اولاد اور پڑوسیوں میں ہوتی ہے اور نماز‘ صدقہ اور اچھی باتوں کے لیے لوگوں کو حکم کرنا اور بری باتوں سے منع کرنا اس فتنے کا کفارہ بن جاتی ہیں۔ اعمش نے کہا ابو وائل کبھی یوں کہتے تھے۔ نماز اور صدقہ اور اچھی باتوں کا حکم دینا بری بات سے روکنا‘ یہ اس فتنے کو مٹا دینے والے نیک کام ہیں۔ پھر اس فتنے کے متعلق عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میری مراد اس فتنہ سے نہیں۔ میں اس فتنے کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہوں جو سمندر کی طرح ٹھاٹھیں مارتا ہوا پھیلے گا۔ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا‘ میں نے کہا کہ امیرالمؤمنین آپ اس فتنے کی فکر نہ کیجئے آپ کے اور اس فتنہ کے درمیان ایک بند دروازہ ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ وہ دروازہ توڑ دیا جائے گا یا صرف کھولا جائے گا۔ انہوں نے بتلایا نہیں بلکہ وہ دروازہ توڑ دیا جائے گا۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب دروازہ توڑ دیا جائے گا تو پھر کبھی بھی بند نہ ہوسکے گا ابووائل نے کہا کہ ہاں پھر ہم رعب کی وجہ سے حذیفہ رضی اللہ عنہ سے یہ نہ پوچھ سکے کہ وہ دروازہ کون ہے؟ اس لیے ہم نے مسروق سے کہا کہ تم پوچھو۔ انہوں نے کہا کہ مسروق رحمتہ اللہ علیہ نے پوچھا تو حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ دروازہ سے مراد خود حضرت عمررضی اللہ عنہ ہی تھے۔ ہم نے پھر پوچھا تو کیا عمر رضی اللہ عنہ جانتے تھے کہ آپ کی مراد کون تھی؟ انہوں نے کہا ہاں جیسے دن کے بعد رات کے آنے کو جانتے ہیں اور یہ اس لیے کہ میں نے جو حدیث بیان کی وہ غلط نہیں تھی۔
تشریح :
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے بیان کی تعریف کی کیونکہ وہ اکثر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے فتنوں اور فسادوں کے بارے میں جو آپ کے بعد ہونے والے تھے‘ پوچھتے رہا کرتے تھے۔ جب کہ دوسرے لوگوں کو اتنی جرات نہ ہوتی تھی۔ اس لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا کہ بے شک تو دل کھول کر ان کو بیان کرے گا کیونکہ تو ان کو خوب جانتا ہے۔ اس حدیث کو حضرت امام بخاری یہاں یہ ثابت کرنے کے لیے لائے کہ صدقہ گناہوں کا کفارہ ہوجاتا ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے بیان کی تعریف کی کیونکہ وہ اکثر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے فتنوں اور فسادوں کے بارے میں جو آپ کے بعد ہونے والے تھے‘ پوچھتے رہا کرتے تھے۔ جب کہ دوسرے لوگوں کو اتنی جرات نہ ہوتی تھی۔ اس لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا کہ بے شک تو دل کھول کر ان کو بیان کرے گا کیونکہ تو ان کو خوب جانتا ہے۔ اس حدیث کو حضرت امام بخاری یہاں یہ ثابت کرنے کے لیے لائے کہ صدقہ گناہوں کا کفارہ ہوجاتا ہے۔