كِتَابُ الزَّكَاةِ بَابُ لاَ صَدَقَةَ إِلَّا عَنْ ظَهْرِ غِنًى صحيح حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ قَالَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ح و حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ عَنْ مَالِكٍ عَنْ نَافِعٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ وَذَكَرَ الصَّدَقَةَ وَالتَّعَفُّفَ وَالْمَسْأَلَةَ الْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنْ الْيَدِ السُّفْلَى فَالْيَدُ الْعُلْيَا هِيَ الْمُنْفِقَةُ وَالسُّفْلَى هِيَ السَّائِلَةُ
کتاب: زکوٰۃ کے مسائل کا بیان
باب: صدقہ وہی بہتر ہے جس کے بعد بھی آدمی
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ان سے ایوب نے
ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔ ( دوسری سند ) اور ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا ان سے مالک نے ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کہ آپ منبر پر تشریف رکھتے تھے۔ آپ نے صدقہ اور کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانے کا اور دوسروں سے مانگنے کا ذکر فرمایا اور فرمایا کہ اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ اوپر کا ہاتھ خرچ کرنے والے کا ہے اور نیچے کا ہاتھ مانگنے والے کا۔
تشریح :
حضرت امام بخاری نے باب منعقدہ کے تحت ان احادیث کو لاکر یہ ثابت فرمایا کہ ہر مرد مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ صاحب دولت بن کر اور دولت میں سے اللہ کا حق زکوٰۃ ادا کرکے ایسا رہنے کی کوشش کرے کہ اس کا ہاتھ ہمیشہ اوپر کا ہاتھ رہے اور تازیست نیچے والا نہ بنے یعنی دینے والا بن کر رہے نہ کہ لینے والا اور لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے والا۔ حدیث میں اس کی بھی ترغیب ہے کہ احتیاج کے باوجود بھی لوگوں کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا چاہیے بلکہ صبرو استقلال سے کام لے کر اپنے توکل علی اللہ اور خود داری کو قائم رکھتے ہوئے اپنی قوت بازو کی محنت پر گزارہ کرناچاہیے۔
حضرت امام بخاری نے باب منعقدہ کے تحت ان احادیث کو لاکر یہ ثابت فرمایا کہ ہر مرد مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ صاحب دولت بن کر اور دولت میں سے اللہ کا حق زکوٰۃ ادا کرکے ایسا رہنے کی کوشش کرے کہ اس کا ہاتھ ہمیشہ اوپر کا ہاتھ رہے اور تازیست نیچے والا نہ بنے یعنی دینے والا بن کر رہے نہ کہ لینے والا اور لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے والا۔ حدیث میں اس کی بھی ترغیب ہے کہ احتیاج کے باوجود بھی لوگوں کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا چاہیے بلکہ صبرو استقلال سے کام لے کر اپنے توکل علی اللہ اور خود داری کو قائم رکھتے ہوئے اپنی قوت بازو کی محنت پر گزارہ کرناچاہیے۔