كِتَابُ الزَّكَاةِ بَابُ الصَّدَقَةِ بِاليَمِينِ صحيح حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنِي خُبَيْبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ سَبْعَةٌ يُظِلُّهُمْ اللَّهُ تَعَالَى فِي ظِلِّهِ يَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّهُ إِمَامٌ عَدْلٌ وَشَابٌّ نَشَأَ فِي عِبَادَةِ اللَّهِ وَرَجُلٌ قَلْبُهُ مُعَلَّقٌ فِي الْمَسَاجِدِ وَرَجُلَانِ تَحَابَّا فِي اللَّهِ اجْتَمَعَا عَلَيْهِ وَتَفَرَّقَا عَلَيْهِ وَرَجُلٌ دَعَتْهُ امْرَأَةٌ ذَاتُ مَنْصِبٍ وَجَمَالٍ فَقَالَ إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ بِصَدَقَةٍ فَأَخْفَاهَا حَتَّى لَا تَعْلَمَ شِمَالُهُ مَا تُنْفِقُ يَمِينُهُ وَرَجُلٌ ذَكَرَ اللَّهَ خَالِيًا فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ
کتاب: زکوٰۃ کے مسائل کا بیان
باب: خیرات داہنے ہاتھ سے دینی بہتر ہے
ہم سے مسدد نے بیان کیا کہا کہ ہم سے یحیٰی بن سعید قطان نے بیان کیا عبیداللہ عمری سے‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے خبیب بن عبدالرحمن نے حفص بن عاصم سے بیان کیا‘ ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سات قسم کے آدمیوں کو اللہ تعالیٰ اپنے ( عرش کے ) سایہ میں رکھے گا جس دن اس کے سوا وار کوئی سایہ نہ ہوگا۔ انصاف کرنے والا حاکم‘ وہ نوجوان جو اللہ تعالیٰ کی عبادت میں جوان ہوا ہو‘ وہ شخص جس کا دل ہر وقت مسجد میں لگارہے‘ دو ایسے شخص جو اللہ کے لیے محبت رکھتے ہیں‘ اسی پر وہ جمع ہوئے اور اسی پر جدا ہوئے‘ ایسا شخص جسے کسی خوبصورت اور عزت دار عورت نے بلایا لیکن اس نے یہ جواب دیا کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں‘ وہ انسان جو صدقہ کرے اور اسے اس درجہ چھپائے کہ بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ ہو کہ داہنے ہاتھ نے کیا خرچ کیا اور وہ شخص جو اللہ کو تنہائی میں یاد کرے اور اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بہنے لگ جائیں۔
تشریح :
قیامت کے دن عرش عظیم کا سایہ پانے والے یہ سات خوش قسمت انسان مرد ہوں یا عورت ان پر حصر نہیں ہے۔ بعض احادیث میں اور بھی ایسے نیک اعمال کا ذکر آیا ہے جن کی وجہ سے سایہ عرش عظیم مل سکے گا۔ بعض علماءنے اس موضوع پر مستقل رسالے تحریر فرمائے ہیں اور ان جملہ اعمال صالحہ کا ذکر کیا ہے جو قیامت کے دن عرش الٰہی کے نیچے سایہ ملنے کا ذریعہ بن سکیں گے۔ بعض نے اس فہرست کو چالیس تک بھی پہنچادیا ہے۔
یہاں باب اور حدیث میں مطابقت اس متصدق سے ہے جو راہ للہ اس قدر پوشیدہ خرچ کرتا ہے کہ دائیں ہاتھ سے خرچ کرتا ہے اور بائیں کو بھی خبر نہیں ہوپاتی۔ اس سے غایت خلوص مراد ہے۔
انصاف کرنے والا حاکم چودھری‘ پنچ‘ اللہ کی عبادت میں مشغول رہنے والا جو ان اور مسجد سے دل لگانے والا نمازی اور دو باہمی الٰہی محبت رکھنے والے مسلمان اور صاحب عصمت وعفت مرد یا عورت مسلمان اور اللہ کے خوف سے آنسو بہانے والی آنکھیں یہ جملہ اعمال حسنہ ایسے ہیں کہ ان پر کاربند ہونے والوں کو عرش الٰہی کا سایہ ملنا ہی چاہیے۔ اس حدیث سے اللہ کے عرش اور اس کے سایہ کا بھی اثبات ہوا جو بلا کیف وکم وتاویل تسلیم کرنا ضروری ہے۔ قرآن پاک کی بہت سی آیات میں عرش عظیم کا ذکر آیا ہے۔ بلا شک وشبہ اللہ پاک صاحب عرش عظیم ہے۔ اس کے لیے عرش کا استواءاور جہت فوق ثابت اور برحق ہے جس کی تاویل نہیں کی جاسکتی اور نہ اس کی کیفیت معلوم کرنے کے ہم مکلف ہیں۔
قیامت کے دن عرش عظیم کا سایہ پانے والے یہ سات خوش قسمت انسان مرد ہوں یا عورت ان پر حصر نہیں ہے۔ بعض احادیث میں اور بھی ایسے نیک اعمال کا ذکر آیا ہے جن کی وجہ سے سایہ عرش عظیم مل سکے گا۔ بعض علماءنے اس موضوع پر مستقل رسالے تحریر فرمائے ہیں اور ان جملہ اعمال صالحہ کا ذکر کیا ہے جو قیامت کے دن عرش الٰہی کے نیچے سایہ ملنے کا ذریعہ بن سکیں گے۔ بعض نے اس فہرست کو چالیس تک بھی پہنچادیا ہے۔
یہاں باب اور حدیث میں مطابقت اس متصدق سے ہے جو راہ للہ اس قدر پوشیدہ خرچ کرتا ہے کہ دائیں ہاتھ سے خرچ کرتا ہے اور بائیں کو بھی خبر نہیں ہوپاتی۔ اس سے غایت خلوص مراد ہے۔
انصاف کرنے والا حاکم چودھری‘ پنچ‘ اللہ کی عبادت میں مشغول رہنے والا جو ان اور مسجد سے دل لگانے والا نمازی اور دو باہمی الٰہی محبت رکھنے والے مسلمان اور صاحب عصمت وعفت مرد یا عورت مسلمان اور اللہ کے خوف سے آنسو بہانے والی آنکھیں یہ جملہ اعمال حسنہ ایسے ہیں کہ ان پر کاربند ہونے والوں کو عرش الٰہی کا سایہ ملنا ہی چاہیے۔ اس حدیث سے اللہ کے عرش اور اس کے سایہ کا بھی اثبات ہوا جو بلا کیف وکم وتاویل تسلیم کرنا ضروری ہے۔ قرآن پاک کی بہت سی آیات میں عرش عظیم کا ذکر آیا ہے۔ بلا شک وشبہ اللہ پاک صاحب عرش عظیم ہے۔ اس کے لیے عرش کا استواءاور جہت فوق ثابت اور برحق ہے جس کی تاویل نہیں کی جاسکتی اور نہ اس کی کیفیت معلوم کرنے کے ہم مکلف ہیں۔