‌صحيح البخاري - حدیث 1422

كِتَابُ الزَّكَاةِ بَابُ إِذَا تَصَدَّقَ عَلَى ابْنِهِ وَهُوَ لاَ يَشْعُرُ صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ حَدَّثَنَا أَبُو الْجُوَيْرِيَةِ أَنَّ مَعْنَ بْنَ يَزِيدَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حَدَّثَهُ قَالَ بَايَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا وَأَبِي وَجَدِّي وَخَطَبَ عَلَيَّ فَأَنْكَحَنِي وَخَاصَمْتُ إِلَيْهِ وَكَانَ أَبِي يَزِيدُ أَخْرَجَ دَنَانِيرَ يَتَصَدَّقُ بِهَا فَوَضَعَهَا عِنْدَ رَجُلٍ فِي الْمَسْجِدِ فَجِئْتُ فَأَخَذْتُهَا فَأَتَيْتُهُ بِهَا فَقَالَ وَاللَّهِ مَا إِيَّاكَ أَرَدْتُ فَخَاصَمْتُهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَكَ مَا نَوَيْتَ يَا يَزِيدُ وَلَكَ مَا أَخَذْتَ يَا مَعْنُ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 1422

کتاب: زکوٰۃ کے مسائل کا بیان باب: اگر باپ ناواقفی سے اپنے بیٹے کو خیرات ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے بیان کیا کہا کہ ہم اسرائیل بن یونس نے بیان کیا کہا کہ ہم سے ابوجویریہ ( حطان بن خفاف ) نے بیان کیا کہ معن بن یزید نے ان سے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ میں نے اور میرے والد اور دادا ( اخفش بن حبیب ) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ آپ نے میری منگنی بھی کرائی اور آپ ہی نے نکاح بھی پڑھایا تھا اور میں آپ کی خدمت میں ایک مقدمہ لے کر حاضر ہوا تھا۔ وہ یہ کہ میرے والد یزید نے کچھ دینار خیرات کی نیت سے نکالے اور ان کو انہوں نے مسجد میں ایک شخص کے پاس رکھ دیا۔ میں گیا اور میں نے ان کو اس سے لے لیا۔ پھر جب میں انہیں لے کر والد صاحب کے پاس آیا تو انہوں نے فرمایا کہ قسم اللہ کی میرا ارادہ تجھے دینے کا نہیں تھا۔ یہی مقدمہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے کر حاضر ہوا اور آپ نے یہ فیصلہ دیا کہ دیکھو یزید جو تم نے نیت کی تھی اس کا ثواب تمہیں مل گیا اور معن! جو تو نے لے لیا وہ اب تیرا ہوگیا۔
تشریح : امام ابوحنیفہ اور امام محمد کا یہی قول ہے کہ اگر ناواقفی میں باپ بیٹے کو فرض زکوٰۃ بھی دے دے تو زکوٰۃ ادا ہوجاتی ہے اور دوسرے علماءکہتے ہیں کہ اعادہ واجب ہے اور اہلحدیث کے نزدیک بہر حال ادا ہوجاتی ہے۔ بلکہ عزیز اور قریب لوگوں کو جو محتاج ہوں زکوٰۃ دینا اور زیادہ ثواب ہے۔ سید علامہ نواب صدیق حسن خان صاحب مرحوم نے کہا کہ متعدد دلائل اس پر قائم ہیں کہ عزیزوں کو خیرات دینا زیادہ افضل ہے‘ خیرات فرض ہو یا نفل اور عزیزوں میں خاوند‘ اولاد کی صراحت ابوسعید کی حدیث میں موجود ہے۔ ( مولانا وحید الزماں ) مضمون حدیث پر غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کس قدر شفیق اور مہربان تھے اور کس وسعت قلبی کے ساتھ آپ نے دین کا تصور پیش فرمایا تھا۔ باپ اور بیٹے ہر دو کو ایسے طور سمجھا دیا کہ ہر دو کا مقصد حاصل ہوگیا اور کوئی جھگڑا باقی نہ رہا۔ آپ کا ارشاد اس بنیادی اصول پر مبنی تھا۔ جو حدیث انما الاعمال بالنیات میں بتلایا گیا ہے کہ عملوں کا اعتبار نیتوں پر ہے۔ آج بھی ضرورت ہے کہ علماءوفقہاءایسی وسیع الظرفی سے کام لے کر امت کے لیے بجائے مشکلات پیدا کرنے کے شرعی حدود میں آسانیاں بہم پہنچائیں اور دین فطرت کا زیادہ سے زیادہ فراخ قلبی کے ساتھ مطالعہ فرمائیں کہ حالات حاضرہ میں اس کی شدید ضرورت ہے۔ فقہاءکا وہ دور گزر چکا جب وہ ایک ایک جزئی پر میدان مناظرہ قائم کردیا کرتے تھے جن سے تنگ آکر حضرت شیخ سعدی کو کہنا پڑا فقیہاں طریق جدل ساختند لم لا نسلم درانداختند امام ابوحنیفہ اور امام محمد کا یہی قول ہے کہ اگر ناواقفی میں باپ بیٹے کو فرض زکوٰۃ بھی دے دے تو زکوٰۃ ادا ہوجاتی ہے اور دوسرے علماءکہتے ہیں کہ اعادہ واجب ہے اور اہلحدیث کے نزدیک بہر حال ادا ہوجاتی ہے۔ بلکہ عزیز اور قریب لوگوں کو جو محتاج ہوں زکوٰۃ دینا اور زیادہ ثواب ہے۔ سید علامہ نواب صدیق حسن خان صاحب مرحوم نے کہا کہ متعدد دلائل اس پر قائم ہیں کہ عزیزوں کو خیرات دینا زیادہ افضل ہے‘ خیرات فرض ہو یا نفل اور عزیزوں میں خاوند‘ اولاد کی صراحت ابوسعید کی حدیث میں موجود ہے۔ ( مولانا وحید الزماں ) مضمون حدیث پر غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کس قدر شفیق اور مہربان تھے اور کس وسعت قلبی کے ساتھ آپ نے دین کا تصور پیش فرمایا تھا۔ باپ اور بیٹے ہر دو کو ایسے طور سمجھا دیا کہ ہر دو کا مقصد حاصل ہوگیا اور کوئی جھگڑا باقی نہ رہا۔ آپ کا ارشاد اس بنیادی اصول پر مبنی تھا۔ جو حدیث انما الاعمال بالنیات میں بتلایا گیا ہے کہ عملوں کا اعتبار نیتوں پر ہے۔ آج بھی ضرورت ہے کہ علماءوفقہاءایسی وسیع الظرفی سے کام لے کر امت کے لیے بجائے مشکلات پیدا کرنے کے شرعی حدود میں آسانیاں بہم پہنچائیں اور دین فطرت کا زیادہ سے زیادہ فراخ قلبی کے ساتھ مطالعہ فرمائیں کہ حالات حاضرہ میں اس کی شدید ضرورت ہے۔ فقہاءکا وہ دور گزر چکا جب وہ ایک ایک جزئی پر میدان مناظرہ قائم کردیا کرتے تھے جن سے تنگ آکر حضرت شیخ سعدی کو کہنا پڑا فقیہاں طریق جدل ساختند لم لا نسلم درانداختند