كِتَابُ الزَّكَاةِ بَابُ إِذَا تَصَدَّقَ عَلَى غَنِيٍّ وَهُوَ لاَ يَعْلَمُ صحيح حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ قَالَ رَجُلٌ لَأَتَصَدَّقَنَّ بِصَدَقَةٍ فَخَرَجَ بِصَدَقَتِهِ فَوَضَعَهَا فِي يَدِ سَارِقٍ فَأَصْبَحُوا يَتَحَدَّثُونَ تُصُدِّقَ عَلَى سَارِقٍ فَقَالَ اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ لَأَتَصَدَّقَنَّ بِصَدَقَةٍ فَخَرَجَ بِصَدَقَتِهِ فَوَضَعَهَا فِي يَدَيْ زَانِيَةٍ فَأَصْبَحُوا يَتَحَدَّثُونَ تُصُدِّقَ اللَّيْلَةَ عَلَى زَانِيَةٍ فَقَالَ اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ عَلَى زَانِيَةٍ لَأَتَصَدَّقَنَّ بِصَدَقَةٍ فَخَرَجَ بِصَدَقَتِهِ فَوَضَعَهَا فِي يَدَيْ غَنِيٍّ فَأَصْبَحُوا يَتَحَدَّثُونَ تُصُدِّقَ عَلَى غَنِيٍّ فَقَالَ اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ عَلَى سَارِقٍ وَعَلَى زَانِيَةٍ وَعَلَى غَنِيٍّ فَأُتِيَ فَقِيلَ لَهُ أَمَّا صَدَقَتُكَ عَلَى سَارِقٍ فَلَعَلَّهُ أَنْ يَسْتَعِفَّ عَنْ سَرِقَتِهِ وَأَمَّا الزَّانِيَةُ فَلَعَلَّهَا أَنْ تَسْتَعِفَّ عَنْ زِنَاهَا وَأَمَّا الْغَنِيُّ فَلَعَلَّهُ يَعْتَبِرُ فَيُنْفِقُ مِمَّا أَعْطَاهُ اللَّهُ
کتاب: زکوٰۃ کے مسائل کا بیان
باب: اگر لاعلمی میں کسی نے مالدار کو
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا کہا کہ ہمیں شعیب نے خبر دی کہا کہ ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا‘ ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک شخص نے ( بنی اسرائیل میں سے ) کہا کہ مجھے ضرور صدقہ ( آج رات ) دینا ہے۔ چنانچہ وہ اپنا صدقہ لے کر نکلا اور ( ناواقفی سے ) ایک چور کے ہاتھ میں رکھ دیا۔ صبح ہوئی تو لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ آج رات کسی نے چور کو صدقہ دے دیا۔ اس شخص نے کہا کہ اے اللہ! تمام تعریف تیرے ہی لیے ہے۔ ( آج رات ) میں پھر ضرور صدقہ کروں گا۔ چنانچہ وہ دوبارہ صدقہ لے کر نکلا اور اس مرتبہ ایک فاحشہ کے ہاتھ میں دے آیا۔ جب صبح ہوئی تو پھر لوگوں میں چرچا ہوا کہ آج رات کسی نے فاحشہ عورت کو صدقہ دے دیا۔ اس شخص نے کہا اے اللہ! تمام تعریف تیرے ہی لیے ہے‘ میں زانیہ کو اپنا صدقہ دے آیا۔ اچھا آج رات پھر ضرور صدقہ نکالوں گا۔ چنانچہ اپنا صدقہ لیے ہوئے وہ پھر نکلا اور اس مرتبہ ایک مالدار کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ صبح ہوئی تو لوگوں کی زبان پر ذکر تھا کہ ایک مالدار کو کسی نے صدقہ دے دیا ہے۔ اس شخص نے کہا کہ اے اللہ! حمد تیرے ہی لیے ہے۔ ( میں اپنا صدقہ ( لاعلمی سے ) چور‘ فاحشہ اور مالدار کو دے آیا۔ ( اللہ تعالیٰ کی طرف سے ) بتایا گیا کہ جہاں تک چور کے ہاتھ میں صدقہ چلے جانے کا سوال ہے۔ تو اس میں اس کا امکان ہے کہ وہ چوری سے رک جائے۔ اسی طرح فاحشہ کو صدقہ کا مال مل جانے پر اس کا امکان ہے کہ وہ زنا سے رک جائے اور مالدار کے ہاتھ میں پڑجانے کا یہ فائدہ ہے کہ اسے عبرت ہو اور پھر جو اللہ عزوجل نے اسے دیا ہے‘ وہ خرچ کرے۔
تشریح :
اس حدیث میں بنی اسرائیل کے ایک سخی کا ذکر ہے جو صدقہ خیرات تقسیم کرنے کی نیت سے رات کو نکلا مگر اس نے لاعلمی میں پہلی رات میں اپنا صدقہ ایک چور کے ہاتھ پر رکھ دیا اور دوسری رات میں ایک فاحشہ عورت کو دے دیا اور تیسری شب میں ایک مالدار کو دیدیا‘ جو مستحق نہ تھا۔ یہ سب کچھ لاعلمی میں ہوا۔ بعد میں جب یہ واقعات اس کو معلوم ہوئے تو اس نے اپنی لا علمی کا اقرار کرتے ہوئے اللہ کی حمد بیان کی گویا یہ کہا اللہم لک الحمد ای لالی ان صدقتی وقعت بید من لا یستحقہا فلک الحمد حیث کان ذلک بارادتک ای لابار ادتی فان ارادۃ اللہ کلہا جمیلۃ یعنی یا اللہ! حمد تیرے لیے ہی ہے نہ کہ میرے لیے۔ میرا صدقہ غیر مستحق کے ہاتھ میں پہنچ گیا پس حمد تیرے ہی لیے ہے۔ اس لیے کہ یہ تیرے ہی ارادے سے ہوا نہ کہ میرے ارادے سے اور اللہ پاک جو بھی چاہے اور وہ جو ارادہ کرے وہ سب بہتر ہی ہے۔
امام بخاری کا مقصد باب یہ ہے کہ ان حالات میں اگرچہ وہ صدقہ غیر مستحق کو مل گیا مگر عنداللہ وہ قبول ہوگیا۔ حدیث سے بھی یہی ظاہر ہوا کہ ناواقفی سے اگر غیر مستحق کو صدقہ دے دیا جائے تو اسے اللہ بھی قبول کرلیتا ہے اور دینے والے کو ثواب مل جاتا ہے۔
لفظ صدقہ میں نفلی صدقہ اور فرضی صدقہ یعنی زکوٰۃ ہر دو داخل ہیں۔
اسرائیل سخی کو خواب میںبتلایا گیا یا ہاتف غیب نے خبردی یا اس زمانہ کے پیغمبر نے اس سے کہا کہ جن غیر مستحقین کو تونے غلطی سے صدقہ دے دیا‘ شاید وہ اس صدقہ سے عبرت حاصل کرکے اپنی غلطیوں سے باز آجائیں۔ چور چوری سے اور زانیہ زنا سے رک جائے اور مالدار کو خود اسی طرح خرچ کرنے کی رغبت ہو۔ ان صورتوں میں تیرا صدقہ تیرے لیے بہت کچھ موجب اجر وثواب ہوسکتا ہے۔ ہذا ہو المواد
اس حدیث میں بنی اسرائیل کے ایک سخی کا ذکر ہے جو صدقہ خیرات تقسیم کرنے کی نیت سے رات کو نکلا مگر اس نے لاعلمی میں پہلی رات میں اپنا صدقہ ایک چور کے ہاتھ پر رکھ دیا اور دوسری رات میں ایک فاحشہ عورت کو دے دیا اور تیسری شب میں ایک مالدار کو دیدیا‘ جو مستحق نہ تھا۔ یہ سب کچھ لاعلمی میں ہوا۔ بعد میں جب یہ واقعات اس کو معلوم ہوئے تو اس نے اپنی لا علمی کا اقرار کرتے ہوئے اللہ کی حمد بیان کی گویا یہ کہا اللہم لک الحمد ای لالی ان صدقتی وقعت بید من لا یستحقہا فلک الحمد حیث کان ذلک بارادتک ای لابار ادتی فان ارادۃ اللہ کلہا جمیلۃ یعنی یا اللہ! حمد تیرے لیے ہی ہے نہ کہ میرے لیے۔ میرا صدقہ غیر مستحق کے ہاتھ میں پہنچ گیا پس حمد تیرے ہی لیے ہے۔ اس لیے کہ یہ تیرے ہی ارادے سے ہوا نہ کہ میرے ارادے سے اور اللہ پاک جو بھی چاہے اور وہ جو ارادہ کرے وہ سب بہتر ہی ہے۔
امام بخاری کا مقصد باب یہ ہے کہ ان حالات میں اگرچہ وہ صدقہ غیر مستحق کو مل گیا مگر عنداللہ وہ قبول ہوگیا۔ حدیث سے بھی یہی ظاہر ہوا کہ ناواقفی سے اگر غیر مستحق کو صدقہ دے دیا جائے تو اسے اللہ بھی قبول کرلیتا ہے اور دینے والے کو ثواب مل جاتا ہے۔
لفظ صدقہ میں نفلی صدقہ اور فرضی صدقہ یعنی زکوٰۃ ہر دو داخل ہیں۔
اسرائیل سخی کو خواب میںبتلایا گیا یا ہاتف غیب نے خبردی یا اس زمانہ کے پیغمبر نے اس سے کہا کہ جن غیر مستحقین کو تونے غلطی سے صدقہ دے دیا‘ شاید وہ اس صدقہ سے عبرت حاصل کرکے اپنی غلطیوں سے باز آجائیں۔ چور چوری سے اور زانیہ زنا سے رک جائے اور مالدار کو خود اسی طرح خرچ کرنے کی رغبت ہو۔ ان صورتوں میں تیرا صدقہ تیرے لیے بہت کچھ موجب اجر وثواب ہوسکتا ہے۔ ہذا ہو المواد