كِتَابُ الزَّكَاةِ بَابُ أَيُّ الصَدَقةِ أَفَضَلُ وَ صَدَقَةِ الشَّحِيحِ الصَّحِيحِ صحيح حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ حَدَّثَنَا عُمَارَةُ بْنُ الْقَعْقَاعِ حَدَّثَنَا أَبُو زُرْعَةَ حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيُّ الصَّدَقَةِ أَعْظَمُ أَجْرًا قَالَ أَنْ تَصَدَّقَ وَأَنْتَ صَحِيحٌ شَحِيحٌ تَخْشَى الْفَقْرَ وَتَأْمُلُ الْغِنَى وَلَا تُمْهِلُ حَتَّى إِذَا بَلَغَتْ الْحُلْقُومَ قُلْتَ لِفُلَانٍ كَذَا وَلِفُلَانٍ كَذَا وَقَدْ كَانَ لِفُلَانٍ
کتاب: زکوٰۃ کے مسائل کا بیان
باب: تندرستی اور مال کی خواہش کے زمانہ
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے عمارہ بن قعقاع نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے ابوزرعہ نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ یا رسول اللہ! کس طرح کے صدقہ میں سب سے زیادہ ثواب ہے؟ آپ نے فرمایا کہ اس صدقہ میں جسے تم صحت کے ساتھ بخل کے باوجود کرو۔ تمہیں ایک طرف تو فقیری کا ڈر ہو اور دوسری طرف مالدار بننے کی تمنا اور امید ہو اور ( اس صدقہ خیرات میں ) ڈھیل نہ ہونی چاہیے کہ جب جان حلق تک آجائے تو اس وقت تو کہنے لگے کہ فلاں کے لیے اتنا اور فلاں کے لیے اتنا حالانکہ وہ تو اب فلاں کا ہوچکا۔
تشریح :
حدیث میں ترغیب ہے کہ تندرستی کی حالت میں جب کہ مال کی محبت بھی دل میں موجود ہو‘ صدقہ خیرات کی طرف ہاتھ بڑھانا چاہیے نہ کہ جب موت قریب آجائے اور جان حلقوم میں پہنچ جائے۔ مگر یہ شریعت کی مہربانی ہے کہ آخر وقت تک بھی جب کہ ہوش وحواس قائم ہوں‘ مرنے والوں کو تہائی مال کی وصیت کرنا جائز قرار دیا ہے‘ ورنہ اب وہ مال تو مرنے والے کی بجائے وارثوں کا ہوچکا ہے۔ پس عقلمندی کا تقاضا یہی ہے کہ تندرستی میں حسب توفیق صدقہ وخیرات میں جلدی کرنی چاہیے اور یاد رکھنا چاہیے کہ گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں۔
حدیث میں ترغیب ہے کہ تندرستی کی حالت میں جب کہ مال کی محبت بھی دل میں موجود ہو‘ صدقہ خیرات کی طرف ہاتھ بڑھانا چاہیے نہ کہ جب موت قریب آجائے اور جان حلقوم میں پہنچ جائے۔ مگر یہ شریعت کی مہربانی ہے کہ آخر وقت تک بھی جب کہ ہوش وحواس قائم ہوں‘ مرنے والوں کو تہائی مال کی وصیت کرنا جائز قرار دیا ہے‘ ورنہ اب وہ مال تو مرنے والے کی بجائے وارثوں کا ہوچکا ہے۔ پس عقلمندی کا تقاضا یہی ہے کہ تندرستی میں حسب توفیق صدقہ وخیرات میں جلدی کرنی چاہیے اور یاد رکھنا چاہیے کہ گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں۔