‌صحيح البخاري - حدیث 1418

كِتَابُ الزَّكَاةِ بَابٌ: اتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ وَالقَلِيلِ مِنَ الصَّدَقَةِ صحيح حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرِ بْنِ حَزْمٍ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ دَخَلَتْ امْرَأَةٌ مَعَهَا ابْنَتَانِ لَهَا تَسْأَلُ فَلَمْ تَجِدْ عِنْدِي شَيْئًا غَيْرَ تَمْرَةٍ فَأَعْطَيْتُهَا إِيَّاهَا فَقَسَمَتْهَا بَيْنَ ابْنَتَيْهَا وَلَمْ تَأْكُلْ مِنْهَا ثُمَّ قَامَتْ فَخَرَجَتْ فَدَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْنَا فَأَخْبَرْتُهُ فَقَالَ مَنْ ابْتُلِيَ مِنْ هَذِهِ الْبَنَاتِ بِشَيْءٍ كُنَّ لَهُ سِتْرًا مِنْ النَّارِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 1418

کتاب: زکوٰۃ کے مسائل کا بیان باب: اس بارے میں کہ جہنم کی آگ سے بچو ہم سے بشربن محمد نے بیان کیا‘ کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی ‘ کہا کہ ہمیں معمر نے زہری سے خبر دی ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن ابی بکر بن حزم نے بیان کیا‘ ان سے عروہ بن زبیر نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ ایک عورت اپنی دو بچیوں کو لیے مانگتی ہوئی آئی۔ میرے پاس ایک کھجور کے سوا اس وقت اور کچھ نہ تھا میں نے وہی دے دی۔ وہ ایک کھجور اس نے اپنی دونوں بچیوں میں تقسیم کردی اور خود نہیں کھائی۔ پھر وہ اٹھی اور چلی گئی۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے آپ سے اس کا حال بیان کیا۔ آپ نے فرمایا کہ جس نے ان بچیوں کی وجہ سے خود کو معمولی سی بھی تکلیف میں ڈالا تو بچیاں اس کے لیے دوزخ سے بچاؤ کے لیے آڑ بن جائیں گی۔
تشریح : اس حدیث کی مناسبت ترجمہ باب سے یوں ہے کہ اس عورت نے ایک کھجور کے دو ٹکڑے کرکے اپنی دونوں بیٹیوں کو دے دئیے جو نہایت قلیل صدقہ ہے اور باوجود اس کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو دوزخ سے بچاؤ کی بشارت دی۔ میں کہتا ہوں اس تکلف کی حاجت نہیں۔ باب میں دو مضمون تھے ایک تو کھجور کا ٹکڑا دے کر دوزخ سے بچنا‘ دوسرے قلیل صدقہ دینا۔ توعدی کی حدیث سے پہلا مطلب ثابت ہوگیا اور حضرت عائشہ کی حدیث سے دوسرا مطلب۔ انہوں نے بہت قلیل صدقہ دیا یعنی ایک کھجور۔ ( وحیدی ) اس سے حضرت عائشہ کی صدقہ خیرات کے لیے حرص بھی ثابت ہوئی اور یہ اس لیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد تھا لا یرجع من عندک سائل ولوبشق تمرۃ رواہ البزار من حدیث ابی ہریرۃ ( فتح ) یعنی تمہارے پاس سے کسی سائل کو خالی ہاتھ نہ جانا چاہیے۔ اگرچہ کھجور کی آدھی پھانک ہی کیوں نہ ہو اس حدیث کی مناسبت ترجمہ باب سے یوں ہے کہ اس عورت نے ایک کھجور کے دو ٹکڑے کرکے اپنی دونوں بیٹیوں کو دے دئیے جو نہایت قلیل صدقہ ہے اور باوجود اس کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو دوزخ سے بچاؤ کی بشارت دی۔ میں کہتا ہوں اس تکلف کی حاجت نہیں۔ باب میں دو مضمون تھے ایک تو کھجور کا ٹکڑا دے کر دوزخ سے بچنا‘ دوسرے قلیل صدقہ دینا۔ توعدی کی حدیث سے پہلا مطلب ثابت ہوگیا اور حضرت عائشہ کی حدیث سے دوسرا مطلب۔ انہوں نے بہت قلیل صدقہ دیا یعنی ایک کھجور۔ ( وحیدی ) اس سے حضرت عائشہ کی صدقہ خیرات کے لیے حرص بھی ثابت ہوئی اور یہ اس لیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد تھا لا یرجع من عندک سائل ولوبشق تمرۃ رواہ البزار من حدیث ابی ہریرۃ ( فتح ) یعنی تمہارے پاس سے کسی سائل کو خالی ہاتھ نہ جانا چاہیے۔ اگرچہ کھجور کی آدھی پھانک ہی کیوں نہ ہو