‌صحيح البخاري - حدیث 1404

كِتَابُ الزَّكَاةِ بَابٌ: مَا أُدِّيَ زَكَاتُهُ فَلَيْسَ بِكَنْزٍ صحيح حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ شَبِيبِ بْنِ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ يُونُسَ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ خَالِدِ بْنِ أَسْلَمَ قَالَ خَرَجْنَا مَعَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَقَالَ أَعْرَابِيٌّ أَخْبِرْنِي عَنْ قَوْلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ قَالَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا مَنْ كَنَزَهَا فَلَمْ يُؤَدِّ زَكَاتَهَا فَوَيْلٌ لَهُ إِنَّمَا كَانَ هَذَا قَبْلَ أَنْ تُنْزَلَ الزَّكَاةُ فَلَمَّا أُنْزِلَتْ جَعَلَهَا اللَّهُ طُهْرًا لِلْأَمْوَالِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 1404

کتاب: زکوٰۃ کے مسائل کا بیان باب: جس مال کی زکوٰۃ دے دی جائے ہم سے احمد بن شبیب بن سعید نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا ہم سے میرے والد شبیب نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے یونس نے بیان کیا‘ ان سے ابن شہاب نے‘ ان سے خالد بن اسلم نے‘ انہوں نے بیان کیا کہ ہم عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ کہیں جارہے تھے۔ ایک اعرابی نے آپ سے پوچھا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تفسیر بتلائیے “ جو لوگ سونے اور چاندی کا خزانہ بناکر رکھتے ہیں۔ ” حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اس کا جواب دیا کہ اگر کسی نے سونا چاندی جمع کیا اور اس کی زکوٰۃ نہ دی تو اس کے لیے ویل ( خرابی ) ہے۔ یہ حکم زکوٰۃ کے احکام نازل ہونے سے پہلے تھا لیکن جب اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کا حکم نازل کردیا تو اب وہی زکوٰۃ مال ودولت کو پاک کردینے والی ہے۔
تشریح : یعنی اس مال سے متعلق یہ آیت نہیں ہے وَالَّذِینَ یَکنِزُونَ الذَّہَبَ وَالفِضَّۃَ ( التوبہ: 34 ) معلوم ہوا کہ اگر کوئی مال جمع کرے تو گنہگار نہیں بشرطیکہ زکوٰۃ دیا کرے۔ گو تقویٰ اور فضیلت کے خلاف ہے۔ یہ ترجمہ باب خود ایک حدیث ہے۔ جسے امام مالک نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے موقوفاً نکالا ہے اور ابوداؤد نے ایک مرفوع حدیث نکالی جس کا مطلب یہی ہے۔ حدیث لیس فیمادون خمس اواق صدقۃ یہ حدیث اس باب میں آتی ہے۔ امام بخاری نے اس حدیث سے دلیل لی کہ جس مال کی زکوٰۃ ادا کی جائے وہ کنزنہیں ہے۔ اس کا دبانا اور رکھ چھوڑنا درست ہے کیونکہ پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں بموجب نص حدیث زکوٰۃ نہیں ہے۔ پس اتنی چاندی کا رکھ چھوڑنا اور دبانا کنزنہ ہوگا اور آیت میں سے اس کو خاص کرنا ہوگا اور خاص کرنے کی وجہ یہی ہوئی کہ زکوٰۃ اس پر نہیں ہے تو جس مال کی زکوٰۃ ادا کردی گئی وہ بھی کنزنہ ہوگا کیونکہ اس پر بھی زکوٰۃ نہیں رہی۔ ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے پانچ اوقیوں کے دو سو درہم ہوئے یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی۔ یہی چاندی کا نصاب ہے اس سے کم میں زکوٰۃ نہیں ہے۔ کنز کے متعلق بیہقی میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے کل ما ادیت زکوتہ وان کان تحت سبع ارضین فلیس بکنز وکل مالا تودی زکوتہ فہو کنز وان کان ظاہرا علی وجہ الارض ( فتح الباری ) یعنی ہر وہ مال جس کی تونے زکوٰۃ ادا کردی ہے وہ کنز نہیں ہے اگرچہ وہ ساتویں زمین کے نیچے دفن ہو اور ہر وہ مال جس کی زکوٰۃ نہیں ادا کی وہ کنز ہے اگر چہ وہ زمین کی پیٹھ پر رکھا ہوا ہو۔ آپ کا یہ قول بھی مروی ہے ما ابالی لو کان لی مثل احد ذہبا اعلم عددہ ازکیہ واعمل فیہ بطاعۃ اللہ تعالیٰ ( فتح ) یعنی مجھ کو کچھ پروا نہیں جب کہ میرے پاس احد پہاڑ جتنا سونا ہو اور میں زکوٰۃ ادا کرکے اسے پاک کروں اور اس میں اللہ کی اطاعت کے کام کروں یعنی اس حالت میں اتنا خزانہ بھی میرے لیے مضر نہیں ہے۔ یعنی اس مال سے متعلق یہ آیت نہیں ہے وَالَّذِینَ یَکنِزُونَ الذَّہَبَ وَالفِضَّۃَ ( التوبہ: 34 ) معلوم ہوا کہ اگر کوئی مال جمع کرے تو گنہگار نہیں بشرطیکہ زکوٰۃ دیا کرے۔ گو تقویٰ اور فضیلت کے خلاف ہے۔ یہ ترجمہ باب خود ایک حدیث ہے۔ جسے امام مالک نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے موقوفاً نکالا ہے اور ابوداؤد نے ایک مرفوع حدیث نکالی جس کا مطلب یہی ہے۔ حدیث لیس فیمادون خمس اواق صدقۃ یہ حدیث اس باب میں آتی ہے۔ امام بخاری نے اس حدیث سے دلیل لی کہ جس مال کی زکوٰۃ ادا کی جائے وہ کنزنہیں ہے۔ اس کا دبانا اور رکھ چھوڑنا درست ہے کیونکہ پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں بموجب نص حدیث زکوٰۃ نہیں ہے۔ پس اتنی چاندی کا رکھ چھوڑنا اور دبانا کنزنہ ہوگا اور آیت میں سے اس کو خاص کرنا ہوگا اور خاص کرنے کی وجہ یہی ہوئی کہ زکوٰۃ اس پر نہیں ہے تو جس مال کی زکوٰۃ ادا کردی گئی وہ بھی کنزنہ ہوگا کیونکہ اس پر بھی زکوٰۃ نہیں رہی۔ ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے پانچ اوقیوں کے دو سو درہم ہوئے یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی۔ یہی چاندی کا نصاب ہے اس سے کم میں زکوٰۃ نہیں ہے۔ کنز کے متعلق بیہقی میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے کل ما ادیت زکوتہ وان کان تحت سبع ارضین فلیس بکنز وکل مالا تودی زکوتہ فہو کنز وان کان ظاہرا علی وجہ الارض ( فتح الباری ) یعنی ہر وہ مال جس کی تونے زکوٰۃ ادا کردی ہے وہ کنز نہیں ہے اگرچہ وہ ساتویں زمین کے نیچے دفن ہو اور ہر وہ مال جس کی زکوٰۃ نہیں ادا کی وہ کنز ہے اگر چہ وہ زمین کی پیٹھ پر رکھا ہوا ہو۔ آپ کا یہ قول بھی مروی ہے ما ابالی لو کان لی مثل احد ذہبا اعلم عددہ ازکیہ واعمل فیہ بطاعۃ اللہ تعالیٰ ( فتح ) یعنی مجھ کو کچھ پروا نہیں جب کہ میرے پاس احد پہاڑ جتنا سونا ہو اور میں زکوٰۃ ادا کرکے اسے پاک کروں اور اس میں اللہ کی اطاعت کے کام کروں یعنی اس حالت میں اتنا خزانہ بھی میرے لیے مضر نہیں ہے۔