‌صحيح البخاري - حدیث 1400

كِتَابُ الزَّكَاةِ بَابُ وُجُوبِ الزَّكَاةِ صحيح فَقَالَ وَاللَّهِ لَأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ الصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ فَإِنَّ الزَّكَاةَ حَقُّ الْمَالِ وَاللَّهِ لَوْ مَنَعُونِي عَنَاقًا كَانُوا يُؤَدُّونَهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقَاتَلْتُهُمْ عَلَى مَنْعِهَا قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَوَاللَّهِ مَا هُوَ إِلَّا أَنْ قَدْ شَرَحَ اللَّهُ صَدْرَ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَعَرَفْتُ أَنَّهُ الْحَقُّ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 1400

کتاب: زکوٰۃ کے مسائل کا بیان باب: زکوٰۃ دینا فرض ہے اس پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ قسم اللہ کی میں ہر اس شخص سے جنگ کروں گا جو زکوٰۃ اور نماز میں تفریق کرے گا۔ ( یعنی نماز تو پڑھے مگر زکوٰۃ کے لیے انکار کردے ) کیونکہ زکوٰۃ مال کا حق ہے۔ خدا کی قسم اگر انہوں نے زکوٰۃ میں چار مہینے کی ( بکری کے ) بچے کو دینے سے بھی انکار کیا جسے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتے تھے تو میں ان سے لڑوں گا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ بخدایہ بات اس کا نتیجہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیا تھا اور بعد میں میں بھی اس نتیجہ پر پہنچا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی حق پر تھے۔
تشریح : وفات نبی کے بعد مدینہ کے اطراف میں مختلف قبائل جو پہلے اسلام لاچکے تھے اب انہوں نے سمجھا کہ اسلام ختم ہوگیا لہٰذا ان میں سے بعض بت پرست بن گئے۔ بعض مسیلمہ کذاب کے تابع ہوگئے جیسے یمامہ والے اور بعض مسلمان رہے مگر زکوٰۃ کی فرضیت کا انکار کرنے لگے اور قرآن شریف کی یوں تاویل کرنے لگے کہ زکوٰۃ لینا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے خاص تھا۔ کیونکہ اللہ نے فرمایا۔ خُذ مِن اَموَالِہِم صَدَقَۃً تُطَہِّرُہُم وُتُزَکِّیہِم بِہَا وَصَلِّ عَلَیہِم اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَن لَّہُم ( التوبہ: 103 ) اور پیغمبر کے سوا اور کسی کی دعا سے ان کو تسلی نہیں ہوسکتی۔ وحسابہ علی اللہ کا مطلب یہ کہ دل میں اس کے ایمان ہے یا نہیں اس سے ہم کو غرض نہیں اس کی پوچھ قیامت کے دن اللہ کے سامنے ہوگی اور دنیا میں جو کوئی زبان سے لا الہ الا اللہ کہے گا اس کو مومن سمجھیں گے اور اس کے مال اور جان پر حملہ نہ کریں گے۔ صدیقی الفاظ میں فرق بین الصلوٰۃ والزکوٰۃ کا مطلب یہ کہ جو شخص نماز کو فرض کہے گا مگر زکوٰۃ کی فرضیت کا انکار کرے گا ہم ضرور ضرور اس پر جہاد کریں گے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی بعد میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رائے سے اتفاق کیا اور سب صحابہ متفق ہوگئے اور زکوٰۃ دینے والوں پر جہاد کیا۔ یہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی فہم وفراست تھی۔ اگر وہ اس عزم سے کام نہ لیتے تو اسی وقت اسلامی نظام درہم برہم ہوجاتا مگر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنے عزم صمیم سے اسلام کو ایک بڑے فتنے سے بچالیا۔ آج بھی اسلامی قانون یہی ہے کہ کوئی شخص محض کلمہ گو ہونے سے مسلمان نہیں بن جاتا جب تک وہ نماز‘ زکوٰۃ‘ روزہ‘ حج کی فرضیت کا اقراری نہ ہو اور وقت آنے پر ان کو ادا نہ کرے۔ جو کوئی کسی بھی اسلام کے رکن کی فرضیت کا انکار کرے وہ متفقہ طورپر اسلام سے خارج اور کافر ہے۔ نماز کے لیے تو صاف موجود ہے من ترک الصلوٰۃ متعمدا فقد کفر جس نے جان بوجھ کر بلا عذر شرعی ایک وقت کی نماز بھی ترک کردی تو اس نے کفر کا ارتکاب کیا۔ عدم زکوٰۃ کے لیے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا فتویٰ جہاد موجود ہے اور حج کے متعلق فاروق اعظم کا وہ فرمان قابل غور ہے جس میں آپ نے مملکت اسلامیہ سے ایسے لوگوں کی فہرست طلب کی تھی جو مسلمان ہیں اورجن پر حج فرض ہے مگر وہ یہ فرض نہیں ادا کرتے تو آپ نے فرمایا تھا کہ ان پر جزیہ قائم کردو‘ وہ مسلمانوں کی جماعت سے خارج ہیں۔ وفات نبی کے بعد مدینہ کے اطراف میں مختلف قبائل جو پہلے اسلام لاچکے تھے اب انہوں نے سمجھا کہ اسلام ختم ہوگیا لہٰذا ان میں سے بعض بت پرست بن گئے۔ بعض مسیلمہ کذاب کے تابع ہوگئے جیسے یمامہ والے اور بعض مسلمان رہے مگر زکوٰۃ کی فرضیت کا انکار کرنے لگے اور قرآن شریف کی یوں تاویل کرنے لگے کہ زکوٰۃ لینا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے خاص تھا۔ کیونکہ اللہ نے فرمایا۔ خُذ مِن اَموَالِہِم صَدَقَۃً تُطَہِّرُہُم وُتُزَکِّیہِم بِہَا وَصَلِّ عَلَیہِم اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَن لَّہُم ( التوبہ: 103 ) اور پیغمبر کے سوا اور کسی کی دعا سے ان کو تسلی نہیں ہوسکتی۔ وحسابہ علی اللہ کا مطلب یہ کہ دل میں اس کے ایمان ہے یا نہیں اس سے ہم کو غرض نہیں اس کی پوچھ قیامت کے دن اللہ کے سامنے ہوگی اور دنیا میں جو کوئی زبان سے لا الہ الا اللہ کہے گا اس کو مومن سمجھیں گے اور اس کے مال اور جان پر حملہ نہ کریں گے۔ صدیقی الفاظ میں فرق بین الصلوٰۃ والزکوٰۃ کا مطلب یہ کہ جو شخص نماز کو فرض کہے گا مگر زکوٰۃ کی فرضیت کا انکار کرے گا ہم ضرور ضرور اس پر جہاد کریں گے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی بعد میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رائے سے اتفاق کیا اور سب صحابہ متفق ہوگئے اور زکوٰۃ دینے والوں پر جہاد کیا۔ یہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی فہم وفراست تھی۔ اگر وہ اس عزم سے کام نہ لیتے تو اسی وقت اسلامی نظام درہم برہم ہوجاتا مگر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنے عزم صمیم سے اسلام کو ایک بڑے فتنے سے بچالیا۔ آج بھی اسلامی قانون یہی ہے کہ کوئی شخص محض کلمہ گو ہونے سے مسلمان نہیں بن جاتا جب تک وہ نماز‘ زکوٰۃ‘ روزہ‘ حج کی فرضیت کا اقراری نہ ہو اور وقت آنے پر ان کو ادا نہ کرے۔ جو کوئی کسی بھی اسلام کے رکن کی فرضیت کا انکار کرے وہ متفقہ طورپر اسلام سے خارج اور کافر ہے۔ نماز کے لیے تو صاف موجود ہے من ترک الصلوٰۃ متعمدا فقد کفر جس نے جان بوجھ کر بلا عذر شرعی ایک وقت کی نماز بھی ترک کردی تو اس نے کفر کا ارتکاب کیا۔ عدم زکوٰۃ کے لیے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا فتویٰ جہاد موجود ہے اور حج کے متعلق فاروق اعظم کا وہ فرمان قابل غور ہے جس میں آپ نے مملکت اسلامیہ سے ایسے لوگوں کی فہرست طلب کی تھی جو مسلمان ہیں اورجن پر حج فرض ہے مگر وہ یہ فرض نہیں ادا کرتے تو آپ نے فرمایا تھا کہ ان پر جزیہ قائم کردو‘ وہ مسلمانوں کی جماعت سے خارج ہیں۔