كِتَابُ الإِيمَانِ بَابٌ: حُبُّ الرَّسُولِ ﷺ مِنَ الإِيمَانِ صحيح حَدَّثَنَا أَبُو اليَمَانِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لاَ يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ»
کتاب: ایمان کے بیان میں
باب: اس بیان میں کہ رسول اللہ ﷺ سے محبت رکھنا بھی ایمان میں داخل ہے
ہم سے ابوالیمان نے حدیث بیان کی، ان کو شعیب نے، ان کو ابولزناد نے اعرج سے، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے نقل کی کہ بے شک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ تم میں سے کوئی بھی ایماندار نہ ہو گا جب تک میں اس کے والد اور اولاد سے بھی زیادہ اس کا محبوب نہ بن جاؤں۔
تشریح :
پچھلے ابواب میں من الایمان کا جملہ مقدم تھا اور یہاں ایمان پر حب الرسول کو مقدم کیا گیا ہے۔ جس میں ادب مقصود ہے اور یہ بتلانا کہ محبت رسول ہی سے ایمان کی اول وآخر تکمیل ہوتی ہے۔ یہ ہے توایمان ہے۔ یہ نہیں توکچھ نہیں۔ اس سے بھی ایمان کی کمی وبیشی پر روشنی پڑتی ہے اور یہ کہ اعمال صالحہ واخلاق فاضلہ وخصائل حمیدہ سب ایمان میں داخل ہیں۔ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کے ایمان کی حلفیہ نفی فرمائی ہے جس کے دل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پر اس کے والد یا اولاد کی محبت غالب ہو۔روایت میں لفظ والد کو اس لیے مقدم کیا گیا کہ اولاد سے زیادہ والدین کا حق ہے اور لفظ والد میں ماں بھی داخل ہے۔
پچھلے ابواب میں من الایمان کا جملہ مقدم تھا اور یہاں ایمان پر حب الرسول کو مقدم کیا گیا ہے۔ جس میں ادب مقصود ہے اور یہ بتلانا کہ محبت رسول ہی سے ایمان کی اول وآخر تکمیل ہوتی ہے۔ یہ ہے توایمان ہے۔ یہ نہیں توکچھ نہیں۔ اس سے بھی ایمان کی کمی وبیشی پر روشنی پڑتی ہے اور یہ کہ اعمال صالحہ واخلاق فاضلہ وخصائل حمیدہ سب ایمان میں داخل ہیں۔ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کے ایمان کی حلفیہ نفی فرمائی ہے جس کے دل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پر اس کے والد یا اولاد کی محبت غالب ہو۔روایت میں لفظ والد کو اس لیے مقدم کیا گیا کہ اولاد سے زیادہ والدین کا حق ہے اور لفظ والد میں ماں بھی داخل ہے۔