كِتَابُ الزَّكَاةِ بَابُ وُجُوبِ الزَّكَاةِ صحيح حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ حَدَّثَنَا أَبُو جَمْرَةَ قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَقُولُ قَدِمَ وَفْدُ عَبْدِ الْقَيْسِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ هَذَا الْحَيَّ مِنْ رَبِيعَةَ قَدْ حَالَتْ بَيْنَنَا وَبَيْنَكَ كُفَّارُ مُضَرَ وَلَسْنَا نَخْلُصُ إِلَيْكَ إِلَّا فِي الشَّهْرِ الْحَرَامِ فَمُرْنَا بِشَيْءٍ نَأْخُذُهُ عَنْكَ وَنَدْعُو إِلَيْهِ مَنْ وَرَاءَنَا قَالَ آمُرُكُمْ بِأَرْبَعٍ وَأَنْهَاكُمْ عَنْ أَرْبَعٍ الْإِيمَانِ بِاللَّهِ وَشَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَعَقَدَ بِيَدِهِ هَكَذَا وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ وَأَنْ تُؤَدُّوا خُمُسَ مَا غَنِمْتُمْ وَأَنْهَاكُمْ عَنْ الدُّبَّاءِ وَالْحَنْتَمِ وَالنَّقِيرِ وَالْمُزَفَّتِ وَقَالَ سُلَيْمَانُ وَأَبُو النُّعْمَانِ عَنْ حَمَّادٍ الْإِيمَانِ بِاللَّهِ شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ
کتاب: زکوٰۃ کے مسائل کا بیان
باب: زکوٰۃ دینا فرض ہے
ہم سے حجاج بن منہال نے حدیث بیان کی‘ کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے ابوجمرہ نصربن عمران ضبعی نے بیان کیا‘ کہا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا‘ آپ نے بتلایا کہ قبیلہ عبدالقیس کا وفد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ یا رسول اللہ! ہم ربیعہ قبیلہ کی ایک شاخ ہیں اور قبیلہ مضر کے کافر ہمارے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان پڑتے ہیں۔ اس لیے ہم آپ کی خدمت میں صرف حرمت کے مہینوں ہی میں حاضر ہوسکتے ہیں ( کیونکہ ان مہینوں میں لڑائیاں بند ہوجاتی ہیں اور راستے پر امن ہوجاتے ہیں ) آپ ہمیں کچھ ایسی باتیں بتلادیجئے جس پر ہم خود بھی عمل کریں اور اپنے قبیلہ کے لوگوں سے بھی ان پر عمل کرنے کے لیے کہیں جو ہمارے ساتھ نہیں آسکے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ میں تمہیں چار باتوں کا حکم دیتا ہوں اور چار چیزوں سے روکتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے اور اس کی وحدانیت کی شہادت دینے کا ( یہ کہتے ہوئے ) آپ نے اپنی انگلی سے ایک طرف اشارہ کیا۔ نماز قائم کرنا‘ پھر زکوٰۃ ادا کرنا اور مال غنیمت سے پانچواں حصہ ادا کرنے ( کا حکم دیتا ہوں ) اور میں تمہیں کدو کے تو نبی سے اور حنتم ( سبزرنگ کا چھوٹا سا مرتبان جیسا گھڑا ) فقیر ( کھجور کی جڑ سے کھودا ہوا ایک برتن ) اور زفت لگا ہوا برتن ( زفت بصرہ میں ایک قسم کا تیل ہوتا تھا ) کے استعمال سے منع کرتا ہوں۔ سلیمان اور ابوالنعمان نے حماد کے واسطہ سے یہی روایت اس طرح بیان کی ہے۔ الایمان باللہ شہادۃ ان لا الہ الا اللہ یعنی اللہ پر ایمان لانے کا مطلب لا الہ الااللہ کی گواہی دینا۔
تشریح :
یہ حدیث اوپر کئی بار گزر چکی ہے۔ سلیمان اور ابوالنعمان کی روایت میں ایمان باللہ کے بعد واؤ عطف نہیں ہے اور حجاج کی روایت میں واؤ عطف تھی۔ جیسے اوپر گزری۔ ایمان باللہ اور شہادۃ ان لا الہ الا اللہ دونوں ایک ہی ہیں۔ اب یہ اعتراض نہ ہوگا کہ یہ پانچ باتیں ہوگئیں اور حج کا ذکر نہیں کیا کیونکہ ان لوگوں پر شاید حج فرض نہ ہوگا۔ اس حدیث سے بھی زکوٰۃ کی فرضیت نکلتی ہے کیونکہ آپ نے اس کا امر کیا اور امر وجوب کے لیے ہوا کرتا ہے۔ مگر جب کوئی دوسرا قرینہ ہو جس میں عدم وجوب ثابت ہو۔ حافظ نے کہا کہ سلیمان کی روایت کو خود مؤلف نے مغازی میں اور ابوالنعمان کی روایت کو بھی خود مؤلف نے خمیس میں وصل کیا۔ ( وحیدی )
چار قسم کے برتن جن کے استعمال سے آپ نے ان کو منع فرمایا وہ یہ تھے جن میں عرب لوگ شراب بطور ذخیرہ رکھا کرتے تھے اور اکثر ان ہی سے صراحی اور جام کا کام لیا کرتے تھے۔ ان برتنوں میں رکھنے سے شراب اور زیادہ نشہ آور ہوجایا کرتی تھی۔ اس لیے آپ نے ان کے استعمال سے منع فرما دیا۔ ظاہر ہے کہ یہ ممانعت وقتی ممانعت تھی۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ نہ صرف گناہوں سے بچنا بلکہ ان کے اسباب اور دواعی سے بھی پرہیز کرنالازمی ہے جن سے ان گناہوں کے لیے آمادگی پیدا ہوسکتی ہو۔ اسی بناپر قرآن مجید میں کہا گیا کہ لاتقربوا الزنیٰ یعنی ان کاموں کے بھی قریب نہ جاؤ جن سے زنا کے لیے آمادگی کا امکان ہو۔
یہ حدیث اوپر کئی بار گزر چکی ہے۔ سلیمان اور ابوالنعمان کی روایت میں ایمان باللہ کے بعد واؤ عطف نہیں ہے اور حجاج کی روایت میں واؤ عطف تھی۔ جیسے اوپر گزری۔ ایمان باللہ اور شہادۃ ان لا الہ الا اللہ دونوں ایک ہی ہیں۔ اب یہ اعتراض نہ ہوگا کہ یہ پانچ باتیں ہوگئیں اور حج کا ذکر نہیں کیا کیونکہ ان لوگوں پر شاید حج فرض نہ ہوگا۔ اس حدیث سے بھی زکوٰۃ کی فرضیت نکلتی ہے کیونکہ آپ نے اس کا امر کیا اور امر وجوب کے لیے ہوا کرتا ہے۔ مگر جب کوئی دوسرا قرینہ ہو جس میں عدم وجوب ثابت ہو۔ حافظ نے کہا کہ سلیمان کی روایت کو خود مؤلف نے مغازی میں اور ابوالنعمان کی روایت کو بھی خود مؤلف نے خمیس میں وصل کیا۔ ( وحیدی )
چار قسم کے برتن جن کے استعمال سے آپ نے ان کو منع فرمایا وہ یہ تھے جن میں عرب لوگ شراب بطور ذخیرہ رکھا کرتے تھے اور اکثر ان ہی سے صراحی اور جام کا کام لیا کرتے تھے۔ ان برتنوں میں رکھنے سے شراب اور زیادہ نشہ آور ہوجایا کرتی تھی۔ اس لیے آپ نے ان کے استعمال سے منع فرما دیا۔ ظاہر ہے کہ یہ ممانعت وقتی ممانعت تھی۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ نہ صرف گناہوں سے بچنا بلکہ ان کے اسباب اور دواعی سے بھی پرہیز کرنالازمی ہے جن سے ان گناہوں کے لیے آمادگی پیدا ہوسکتی ہو۔ اسی بناپر قرآن مجید میں کہا گیا کہ لاتقربوا الزنیٰ یعنی ان کاموں کے بھی قریب نہ جاؤ جن سے زنا کے لیے آمادگی کا امکان ہو۔