كِتَابُ الزَّكَاةِ بَابُ وُجُوبِ الزَّكَاةِ صحيح حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدِ بْنِ حَيَّانَ عَنْ أَبِي زُرْعَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ أَعْرَابِيًّا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ دُلَّنِي عَلَى عَمَلٍ إِذَا عَمِلْتُهُ دَخَلْتُ الْجَنَّةَ قَالَ تَعْبُدُ اللَّهَ لَا تُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا وَتُقِيمُ الصَّلَاةَ الْمَكْتُوبَةَ وَتُؤَدِّي الزَّكَاةَ الْمَفْرُوضَةَ وَتَصُومُ رَمَضَانَ قَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا أَزِيدُ عَلَى هَذَا فَلَمَّا وَلَّى قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَلْيَنْظُرْ إِلَى هَذَا حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ عَنْ يَحْيَى عَنْ أَبِي حَيَّانَ قَالَ أَخْبَرَنِي أَبُو زُرْعَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهَذَا
کتاب: زکوٰۃ کے مسائل کا بیان
باب: زکوٰۃ دینا فرض ہے
ہم سے محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے عفان بن مسلم نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا ان سے یحییٰ بن سعید بن حیان نے‘ ان سے ابوزرعہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ ایک دیہاتی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور عرض کی کہ آپ مجھے کوئی ایسا کام بتلائیے جس پر اگر میں ہمیشگی کروں تو جنت میں داخل ہوجاؤں۔ آپ نے فرمایا کہ اللہ کی عبادت کر‘ اس کا کسی کو شریک نہ ٹھہرا‘ فرض نماز قائم کر‘ فرض زکوٰۃ دے اور رمضان کے روزے رکھ۔ دیہاتی نے کہا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے‘ ان عملوں پر میں کوئی زیادتی نہیں کروں گا۔ جب وہ پیٹھ موڑ کر جانے لگا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر کوئی ایسے شخص کو دیکھنا چاہے جو جنت والوں میں سے ہوتو وہ اس شخص کو دیکھ لے۔ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا‘ ان سے یحیٰی بن سعید قطان نے‘ ان سے ابوحیان نے‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابوزرعہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی حدیث روایت کی۔
تشریح :
مگر یحیٰی بن سعید قطان کی یہ روایت مرسل ہے۔ کیونکہ ابوزرعہ تابعی ہیں۔ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنا اور وہیب کی روایت جو اوپر گزری وہ موصول ہے اور وہیب ثقہ ہیں۔ ان کی زیارت مقبول ہے۔ اس لیے حدیث میں کوئی علت نہیں ( وحیدی )
اس حدیث کے ذیل حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: قال القرطبی فی ہذا الحدیث وکذا حدیث طلحۃ فی قصۃ الاعرابی وغیرہما دلالۃ علی جواز ترک التطوعات لکن من داوم علی ترک السنن کان نقصا فی دینہ فان کان ترکہا تہاونا بہا ورغبۃ عنہا کان ذلک فسقا یعنی لو رود الوعید علیہ حیث قال صلی اللہ علیہ وسلم من رغب عن سنتی فلیس من وقد کان صدر الصحابۃ ومن تبعہم یواظبون علی السنن مواظبتہم علی الفرائض ولا یفرقون بینہما فی اغتنام ثوابہما ( فتح الباری ) یعنی قرطبی نے کہا کہ اس حدیث میں اور نیز حدیث طلحہ میں جس میں ایک دیہاتی کا ذکر ہے‘ اس پر دلیل ہے کہ نفلیات کا ترک کردینا بھی جائز ہے مگر جو شخص سنتوں کے چھوڑنے پر ہمیشگی کرے گا وہ اس کے دین میں نقص ہوگا اور اگر وہ بے رغبتی اور سستی سے ترک کررہا ہے تو یہ فسق ہوگا۔ اس لیے کہ ترک سنن کے متعلق وعید آئی ہے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو میری سنتوں سے بے رغبتی کرے وہ مجھ سے نہیں ہے۔ اور صدر اول میں صحابہ کرام اور تابعین عظام سنتوں پر فرضوں ہی کی طرح ہمیشگی کیا کرتے تھے اور ثواب حاصل کرنے کے خیال میں وہ لوگ فرضوں اور سنتوں میں فرق نہیں کرتے تھے۔
حدیث بالا میں حج کا ذکر نہیں ہے‘ اس پر حافظ فرماتے ہیں۔ لم یذکر الحج لانہ کان حینئذ حاجا ولعلہ ذکرہ لہ فاختصرہ یعنی حج کا ذکر نہیں فرمایا اس لیے کہ وہ اس وقت حاجی تھا یا آپ نے ذکر فرمایا مگر راوی نے بطور اختصار اس کا ذکر چھوڑ دیا۔
بعض محترم حنفی حضرات نے اہلحدیث پر الزام لگایا ہے کہ یہ لوگ سنتوں کا اہتمام نہیں کرتے‘ یہ الزام سراسر غلط ہے۔ الحمدللہ اہلحدیث کا بنیادی اصول توحید وسنت پر کاربند ہونا ہے۔ سنت کی محبت اہلحدیث کا شیوہ ہے لہٰذا یہ الزام بالکل بے حقیقت ہے۔ ہاں معاندین اہلحدیث کے بارے میں اگر کہا جائے کہ ان کے ہاں اقوال ائمہ اکثر سنتوں پر مقدم سمجھے جاتے ہیں تو یہ ایک حد تک درست ہے۔ جس کی تفصیل کے لیے اعلام الموقعین از علامہ ابن قیم کا مطالعہ مفید ہوگا۔
مگر یحیٰی بن سعید قطان کی یہ روایت مرسل ہے۔ کیونکہ ابوزرعہ تابعی ہیں۔ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنا اور وہیب کی روایت جو اوپر گزری وہ موصول ہے اور وہیب ثقہ ہیں۔ ان کی زیارت مقبول ہے۔ اس لیے حدیث میں کوئی علت نہیں ( وحیدی )
اس حدیث کے ذیل حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: قال القرطبی فی ہذا الحدیث وکذا حدیث طلحۃ فی قصۃ الاعرابی وغیرہما دلالۃ علی جواز ترک التطوعات لکن من داوم علی ترک السنن کان نقصا فی دینہ فان کان ترکہا تہاونا بہا ورغبۃ عنہا کان ذلک فسقا یعنی لو رود الوعید علیہ حیث قال صلی اللہ علیہ وسلم من رغب عن سنتی فلیس من وقد کان صدر الصحابۃ ومن تبعہم یواظبون علی السنن مواظبتہم علی الفرائض ولا یفرقون بینہما فی اغتنام ثوابہما ( فتح الباری ) یعنی قرطبی نے کہا کہ اس حدیث میں اور نیز حدیث طلحہ میں جس میں ایک دیہاتی کا ذکر ہے‘ اس پر دلیل ہے کہ نفلیات کا ترک کردینا بھی جائز ہے مگر جو شخص سنتوں کے چھوڑنے پر ہمیشگی کرے گا وہ اس کے دین میں نقص ہوگا اور اگر وہ بے رغبتی اور سستی سے ترک کررہا ہے تو یہ فسق ہوگا۔ اس لیے کہ ترک سنن کے متعلق وعید آئی ہے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو میری سنتوں سے بے رغبتی کرے وہ مجھ سے نہیں ہے۔ اور صدر اول میں صحابہ کرام اور تابعین عظام سنتوں پر فرضوں ہی کی طرح ہمیشگی کیا کرتے تھے اور ثواب حاصل کرنے کے خیال میں وہ لوگ فرضوں اور سنتوں میں فرق نہیں کرتے تھے۔
حدیث بالا میں حج کا ذکر نہیں ہے‘ اس پر حافظ فرماتے ہیں۔ لم یذکر الحج لانہ کان حینئذ حاجا ولعلہ ذکرہ لہ فاختصرہ یعنی حج کا ذکر نہیں فرمایا اس لیے کہ وہ اس وقت حاجی تھا یا آپ نے ذکر فرمایا مگر راوی نے بطور اختصار اس کا ذکر چھوڑ دیا۔
بعض محترم حنفی حضرات نے اہلحدیث پر الزام لگایا ہے کہ یہ لوگ سنتوں کا اہتمام نہیں کرتے‘ یہ الزام سراسر غلط ہے۔ الحمدللہ اہلحدیث کا بنیادی اصول توحید وسنت پر کاربند ہونا ہے۔ سنت کی محبت اہلحدیث کا شیوہ ہے لہٰذا یہ الزام بالکل بے حقیقت ہے۔ ہاں معاندین اہلحدیث کے بارے میں اگر کہا جائے کہ ان کے ہاں اقوال ائمہ اکثر سنتوں پر مقدم سمجھے جاتے ہیں تو یہ ایک حد تک درست ہے۔ جس کی تفصیل کے لیے اعلام الموقعین از علامہ ابن قیم کا مطالعہ مفید ہوگا۔