كِتَابُ الجَنَائِزِ بَابُ ذِكْرِ شِرَارِ المَوْتَى صحيح حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَالَ أَبُو لَهَبٍ عَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَبًّا لَكَ سَائِرَ الْيَوْمِ فَنَزَلَتْ تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ
کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
باب: برے مردوں کی برائی بیان کرنا درست ہے
ہم سے عمر بن حفص نے بیان کیاانہوں نے کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا اعمش سےانہوں نے کہا کہ مجھ سے عمروبن مرہ نے بیان کیا‘ ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیاکہ ابولہب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ سارے دن تجھ پر بربادی ہو۔ اس پر یہ آیت اتری ﴿ تبت یدا ابی لہب وتب ﴾ یعنی ٹوٹ گئے ہاتھ ابولہب کے اور وہ خود ہی برباد ہوگیا۔
تشریح :
جب یہ آیت اتری وَاَنذِر عَشِیرَتَکَ الاَقرَبِینَ ( الشعرا: 214 ) یعنی اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرا تو آپ کوہ صفا پر چڑھے اور قریش کے لوگوں کو پکارا‘ وہ سب اکٹھے ہوئے۔ پھر آپ نے ان کو خدا کے عذاب سے ڈرایا تب ابولہب مردود کہنے لگا تیری خرابی ہو سارے دن کیا تو نے ہم کو اسی بات کے لیے اکٹھا کیاتھا؟ اس وقت یہ سورت اتری تبت یدا ابی لہب وتب یعنی ابولہب ہی کے دونوں ہاتھ ٹوٹے اور وہ ہلاک ہوا۔ معلوم ہوا کہ برے لوگوں کافروں‘ ملحدوں کو ان کے برے کاموں کے ساتھ یاد کرنا درست ہے۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ای وصلوا الی ما عملوا من خیر وشرو اشتد بہ علی منع سبب الاموات مطلقا وقد تقدم ان عمومہ مخصوص واصح ماقیل فی ذالک ان اموات الکفار والفساق یجوز ذکر مساویہم للتحذیر منہم والتنفیر عنہم وقد اجمع العلماءعلی جواز جرح المجروحین من الرواۃ احیاءوامواتا یعنی انہوں نے جو کچھ برائی بھلائی کی وہ سب کچھ ان کے سامنے آگیا۔ اب ان کی برائی کرنا بیکار ہے اور اس سے دلیل پکڑی گئی ہے کہ اموات کو برائیوں سے یاد کرنا مطلقاً منع ہے اور پیچھے گزرچکا ہے کہ اس کا عموم مخصوص ہے اور اس بارے میں صحیح ترین خیال یہ ہے کہ مرے ہوئے کافروں اور فاسقوں کی برائیوں کا ذکر کرنا جائز ہے۔ تاکہ ان کے جیسے برے کاموں سے نفرت پیدا ہو اور علماءنے اجماع کیا ہے کہ راویان حدیث زندوں مردوں پر جرح کرنا جائز ہے۔
جب یہ آیت اتری وَاَنذِر عَشِیرَتَکَ الاَقرَبِینَ ( الشعرا: 214 ) یعنی اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرا تو آپ کوہ صفا پر چڑھے اور قریش کے لوگوں کو پکارا‘ وہ سب اکٹھے ہوئے۔ پھر آپ نے ان کو خدا کے عذاب سے ڈرایا تب ابولہب مردود کہنے لگا تیری خرابی ہو سارے دن کیا تو نے ہم کو اسی بات کے لیے اکٹھا کیاتھا؟ اس وقت یہ سورت اتری تبت یدا ابی لہب وتب یعنی ابولہب ہی کے دونوں ہاتھ ٹوٹے اور وہ ہلاک ہوا۔ معلوم ہوا کہ برے لوگوں کافروں‘ ملحدوں کو ان کے برے کاموں کے ساتھ یاد کرنا درست ہے۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ای وصلوا الی ما عملوا من خیر وشرو اشتد بہ علی منع سبب الاموات مطلقا وقد تقدم ان عمومہ مخصوص واصح ماقیل فی ذالک ان اموات الکفار والفساق یجوز ذکر مساویہم للتحذیر منہم والتنفیر عنہم وقد اجمع العلماءعلی جواز جرح المجروحین من الرواۃ احیاءوامواتا یعنی انہوں نے جو کچھ برائی بھلائی کی وہ سب کچھ ان کے سامنے آگیا۔ اب ان کی برائی کرنا بیکار ہے اور اس سے دلیل پکڑی گئی ہے کہ اموات کو برائیوں سے یاد کرنا مطلقاً منع ہے اور پیچھے گزرچکا ہے کہ اس کا عموم مخصوص ہے اور اس بارے میں صحیح ترین خیال یہ ہے کہ مرے ہوئے کافروں اور فاسقوں کی برائیوں کا ذکر کرنا جائز ہے۔ تاکہ ان کے جیسے برے کاموں سے نفرت پیدا ہو اور علماءنے اجماع کیا ہے کہ راویان حدیث زندوں مردوں پر جرح کرنا جائز ہے۔