‌صحيح البخاري - حدیث 1392

كِتَابُ الجَنَائِزِ بَابُ مَا جَاءَ فِي قَبْرِ النَّبِيِّ ﷺ وَأَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ ؓ صحيح حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ حَدَّثَنَا حُصَيْنُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ الْأَوْدِيِّ قَالَ رَأَيْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ اذْهَبْ إِلَى أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَقُلْ يَقْرَأُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عَلَيْكِ السَّلَامَ ثُمَّ سَلْهَا أَنْ أُدْفَنَ مَعَ صَاحِبَيَّ قَالَتْ كُنْتُ أُرِيدُهُ لِنَفْسِي فَلَأُوثِرَنَّهُ الْيَوْمَ عَلَى نَفْسِي فَلَمَّا أَقْبَلَ قَالَ لَهُ مَا لَدَيْكَ قَالَ أَذِنَتْ لَكَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ قَالَ مَا كَانَ شَيْءٌ أَهَمَّ إِلَيَّ مِنْ ذَلِكَ الْمَضْجَعِ فَإِذَا قُبِضْتُ فَاحْمِلُونِي ثُمَّ سَلِّمُوا ثُمَّ قُلْ يَسْتَأْذِنُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَإِنْ أَذِنَتْ لِي فَادْفِنُونِي وَإِلَّا فَرُدُّونِي إِلَى مَقَابِرِ الْمُسْلِمِينَ إِنِّي لَا أَعْلَمُ أَحَدًا أَحَقَّ بِهَذَا الْأَمْرِ مِنْ هَؤُلَاءِ النَّفَرِ الَّذِينَ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَنْهُمْ رَاضٍ فَمَنْ اسْتَخْلَفُوا بَعْدِي فَهُوَ الْخَلِيفَةُ فَاسْمَعُوا لَهُ وَأَطِيعُوا فَسَمَّى عُثْمَانَ وَعَلِيًّا وَطَلْحَةَ وَالزُّبَيْرَ وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ وَسَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ وَوَلَجَ عَلَيْهِ شَابٌّ مِنْ الْأَنْصَارِ فَقَالَ أَبْشِرْ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ بِبُشْرَى اللَّهِ كَانَ لَكَ مِنْ الْقَدَمِ فِي الْإِسْلَامِ مَا قَدْ عَلِمْتَ ثُمَّ اسْتُخْلِفْتَ فَعَدَلْتَ ثُمَّ الشَّهَادَةُ بَعْدَ هَذَا كُلِّهِ فَقَالَ لَيْتَنِي يَا ابْنَ أَخِي وَذَلِكَ كَفَافًا لَا عَلَيَّ وَلَا لِي أُوصِي الْخَلِيفَةَ مِنْ بَعْدِي بِالْمُهَاجِرِينَ الْأَوَّلِينَ خَيْرًا أَنْ يَعْرِفَ لَهُمْ حَقَّهُمْ وَأَنْ يَحْفَظَ لَهُمْ حُرْمَتَهُمْ وَأُوصِيهِ بِالْأَنْصَارِ خَيْرًا الَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ أَنْ يُقْبَلَ مِنْ مُحْسِنِهِمْ وَيُعْفَى عَنْ مُسِيئِهِمْ وَأُوصِيهِ بِذِمَّةِ اللَّهِ وَذِمَّةِ رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُوفَى لَهُمْ بِعَهْدِهِمْ وَأَنْ يُقَاتَلَ مِنْ وَرَائِهِمْ وَأَنْ لَا يُكَلَّفُوا فَوْقَ طَاقَتِهِمْ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 1392

کتاب: جنازے کے احکام و مسائل باب: نبی کریمﷺ اور صحابہ کی قبروں کا بیان ہم سے قتیبہ نے بیان کیا کہا کہ ہم سے جریربن عبدالحمید نے بیان کیا کہا کہ ہم سے حصین بن عبدالرحمن نے بیان کیا‘ ان سے عمرو بن میمون اودی نے بیان کیا کہ میری موجودگی میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے فرمایا کہ اے عبداللہ! ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں جا اور کہہ کہ عمر بن خطاب نے آپ کو سلام کہا ہے اور پھر ان سے معلوم کرنا کہ کیا مجھے میرے دونوں ساتھیوں کے ساتھ دفن ہونے کی آپ کی طرف سے اجازت مل سکتی ہے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے اس جگہ کو اپنے لیے پسند کر رکھا تھا لیکن آج میں اپنے پر عمر رضی اللہ عنہ کو ترجیح دیتی ہوں۔ جب ابن عمر رضی اللہ عنہما واپس آئے تو عمر رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا کہ کیا پیغام لائے ہو؟ کہا کہ امیرالمؤمنین انہوں نے آپ کو اجازت دے دی ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ یہ سن کر بولے کہ اس جگہ دفن ہونے سے زیادہ مجھے اور کوئی چیز عزیز نہیں تھی۔ لیکن جب میری روح قبض ہوجائے تو مجھے اٹھاکر لے جانا اور پھر دوبارہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو میرا سلام پہنچا کر ان سے کہنا کہ عمر نے آپ سے اجازت چاہی ہے۔ اگر اس وقت بھی وہ اجازت دے دیں تو مجھے وہیں دفن کردینا‘ ورنہ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کردینا۔ میں اس امرخلافت کا ان چند صحابہ سے زیادہ اور کسی کو مستحق نہیں سمجھتا جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات کے وقت تک خوش اور راضی رہے۔ وہ حضرات میرے بعد جسے بھی خلیفہ بنائیں‘ خلیفہ وہی ہوگا اور تمہارے لیے ضروری ہے کہ تم اپنے خلیفہ کی باتیں توجہ سے سنو اور اس کی اطاعت کرو۔ آپ نے اس موقع پر حضرت عثمان‘ علی‘ طلحہ‘ زبیر‘ عبدالرحمن بن عوف اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم کے نام لیے۔ اتنے میں ایک انصاری نوجوان داخل ہوا اور کہا کہ اے امیرالمؤمنین آپ کو بشارت ہو‘ اللہ عزوجل کی طرف سے‘ آپ کا اسلام میں پہلے داخل ہونے کی وجہ سے جو مرتبہ تھا وہ آپ کو معلوم ہے۔ پھر جب آپ خلیفہ ہوئے تو آپ نے انصاف کیا۔ پھر آپ نے شہادت پائی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بولے میرے بھائی کے بیٹے! کاش ان کی وجہ سے میں برابر چھوٹ جاؤں۔ نہ مجھے کوئی عذاب ہو اور نہ کوئی ثواب۔ ہاں میں اپنے بعد آنے والے خلیفہ کو وصیت کرتا ہوں کہ وہ مہاجرین اولین کے ساتھ اچھا برتاؤ رکھے‘ ان کے حقوق پہچانے اور ان کی عزت کی حفاظت کرے اور میں اسے انصار کے بارے میں بھی اچھا برتاؤ رکھنے کی وصیت کرتا ہوں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ایمان والوں کو اپنے گھروں میںجگہ دی۔ ( میری وصیت ہے کہ ) ان کے اچھے لوگوں کے ساتھ بھلائی کی جائے اور ان میں جو برے ہوں ان سے درگذر کیا جائے اور میں ہونے والے خلیفہ کو وصیت کرتاہوں اس ذمہ داری کو پورا کرنے کی جو اللہ اور رسول کی ذمہ داری ہے ( یعنی غیر مسلموں کی جو اسلامی حکومت کے تحت زندگی گذارتے ہیں ) کہ ان سے کئے گئے وعدوں کو پورا کیا جائے۔ انہیں بچا کرلڑا جائے اور طاقت سے زیادہ ان پر کوئی بار نہ ڈالا جائے۔
تشریح : سیدنا حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوحفصہ ہے۔ عدوی قریشی ہیں۔ نبوت کے چھٹے سال اسلام میں داخل ہوئے بعضوں نے کہاں کہ پانچویں سال میں۔ ان سے پہلے چالیس مرد اور گیارہ عورتیں اسلام لاچکی تھیں اور کہا جاتا ہے کہ چالیسویں مرد حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہی تھے۔ ان کے اسلام قبول کرنے کے دن ہی سے اسلام نمایاں ہونا شروع ہوگیا۔ اسی وجہ سے ان کا لقب فاروق ہوا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا تھا کہ آپ کا لقب فاروق کیسے ہوا؟ فرمایا کہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ میرے اسلام سے تین دن پہلے مسلمان ہوچکے تھے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اسلام کے لیے میرا سینہ بھی کھول دیا تو میں نے کہا اللہ لا الہ الا ہولہ الا سماءالحسنی اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اسی کے لیے سب اچھے نام ہیں۔ اس کے بعد کوئی جان مجھ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جان سے پیاری نہ تھی۔ اس کے بعد میں نے دریافت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہاں تشریف فرما ہیں تو میری بہن نے مجھ کو بتلایا کہ آپ دار ارقم بن ابی ارقم میں جو کوہ صفا کے پاس ہے‘ تشریف رکھتے ہیں۔ میں ابو ارقم کے مکان پر حاضر ہوا جب کہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ بھی آپ کے صحابہ کے ساتھ مکان میں موجود تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی گھر میں تشریف فرما تھے۔ میں نے دروازے کو پیٹا تو لوگوں نے نکلنا چاہا۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تم لوگوں کو کیاہوگیا؟ سب نے کہا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ آئے ہیں پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور مجھے کپڑوں سے پکڑلیا۔ پھر خوب زور سے مجھ کو اپنی طرف کھینچا کہ میں رک نہ سکااور گھٹنے کے بل گرگیا۔ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ عمر اس کفر سے کب تک باز نہیں آؤ گے؟ تو بے ساختہ میری زبان سے نکلا اشہدان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ واشہدان محمدا عبدہ ورسولہ اس پر تمام دارارقم کے لوگوں نے نعرہ تکبیر بلند کیا کہ جس کی آواز حرم شریف میں سنی گئی۔ اس کے بعد میں نے کہا کہ یا رسول اللہ! کیا ہم موت اور حیات میں دین حق پر نہیں ہیں؟ آپ نے فرمایا کیوں نہیں قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم سب حق پر ہو‘ اپنی موت میں بھی اور حیات میں بھی۔ اس پر میں نے عرض کیاکہ پھر اس حق کو چھپانے کا کیا مطلب۔ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ہم ضرور حق کولے کر باہر نکلیں گے۔ چنانچہ ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دو صفوں کے درمیان نکالا۔ ایک صف میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اور دوسری صف میں میں تھا اور میرے اندر جوش ایمان کی وجہ سے ایک چکی جیسی گڑ گڑاہٹ تھی۔ یہاں تک کہ ہم مسجد حرام میں پہنچ گئے تو مجھ کو اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو قریش نے دیکھا اور ان کو اس قدر صدمہ پہنچا کہ ایسا صدمہ انہیں اس سے پہلے کبھی نہ پہنچا تھا۔ اسی دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا نام فاروق رکھ دیا کہ اللہ نے میری وجہ سے حق اور باطل میں فرق کردیا۔ روایتوں میں ہے کہ آپ کے اسلام لانے پر حضرت جبرئیل امین علیہ السلام تشریف لائے اور فرمایا کہ اے اللہ کے رسول! آج عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے سے تمام آسمانوں والے بے حد خوش ہوئے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قسم خدا کی میں یقین رکھتا ہوں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے علم کو ترازو کے ایک پلڑے میں رکھا جائے اور دوسری میں تمام زندہ انسانوں کاعلم تو یقینا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے علم والا پلڑا جھک جائے گا۔ آپ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تمام غزوات میں شریک ہوئے اور یہ پہلے خلیفہ ہیں جو امیرالمؤمنین لقب سے پکارے گئے۔ حضرت عمر گورے رنگ والے لمبے قدوالے تھے۔ سر کے بال اکثر گر گئے تھے۔ آنکھوں میں سرخ جھلک رہا کرتی تھی۔ اپنی خلافت میں تمام امور حکومت کو احسن طریق پر انجام دیا۔ آخرمدینہ میں بدھ کے دن 26ذی الحجہ 23ھ میں مغیرہ بن شعبہ کے غلام ابولولوءنے آپ کو خنجر سے زخمی کیا اور یکم محرم الحرام کو آپ نے جام شہادت نوش فرمایا۔ تریسٹھ سال کی عمر پائی۔ مدت خلافت دس سال چھ ماہ ہے۔ آپ کے جنازہ کی نماز حضرت صہیب رومی نے پڑھائی۔ وفات سے قبل حجرئہ نبوی میں دفن ہونے کے لیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے باضابطہ اجازت حاصل کرلی۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں۔ وفیہ الحرص علی مجاورۃ الصالحین فی القبور طمعا فی اصابۃ الرحمۃ اذا نزلت علیہم وفی دعاءمن یزورہم من اہل الخیر یعنی آپ کے اس واقعہ میں یہ پہلو بھی ہے کہ صالحین بندوں کے پڑوس میں دفن ہونے کی حرص کرنا درست ہے۔ اس طمع میں کہ ان صالحین بندوں پر رحمت الٰہی کا نزول ہوگا تو اس میں ان کو بھی شرکت کا موقع ملے گا اور جواہل خیر ان کے لیے دعائے خیر کرنے آئیں گے وہ ان کی قبر پر بھی دعا کرتے جائیں گے۔ اس طرح دعاؤں میں بھی شرکت رہے گی۔ سبحان اللہ کیا مقام ہے! ہر سال لاکھوں مسلمان مدینہ شریف پہنچ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام پڑھتے ہیں۔ ساتھ ہی آپ کے جان نثاروں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور فاروق اعظم رضی اللہ عنہ پر بھی سلام بھیجنے کا موقع مل جاتا ہے۔ سچ ہے نگاہ ناز جسے آشنائے راز کرے وہ اپنی خوبی قسمت پہ کیوں نہ ناز کرے عشرہ مبشرہ میں سے یہی لوگ موجود تھے جن کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خلیفہ بنانے والی کمیٹی کے لیے نام لیا۔ ابوعبیدہ بن جراح کا انتقال ہوچکا تھا اور سعید بن زید گوزندہ تھے مگر وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے رشہ دار یعنی چچا زاد بھائی ہوتے تھے‘ اس لیے ان کا بھی نام نہیں لیا۔ دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے بتاکید فرمایا کہ دیکھو میرے بیٹے عبداللہ کا خلافت میں کوئی حق نہیں ہے۔ یہ آپ کا وہ کارنامہ ہے جس پر آج کی نام نہاد جمہوریتیں ہزارہا بار قربان کی جاسکتی ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی کسرنفسی کا یہ عالم ہے کہ ساری عمر خلافت کمال عدل کے ساتھ چلائی پھر بھی اب آخر وقت میں اسی کو غنیمت تصور فرمارہے ہیں کہ خلافت کا نہ ثواب ملے نہ عذاب ہو بلکہ برابر برابر میں اُتر جائے تو یہی غنیمت ہے۔ اخیر میں آپ نے مہاجرین وانصار کے لیے بہترین وصیتیں فرمائیں اور سب سے بڑا کارنامہ یہ کہ ان غیر مسلموں کے لیے جو خلافت اسلامی کے زیر نگین امن وامان کی زندگی گزارتے ہیں‘ خصوصی وصیت فرمائی کہ ہرگز ہرگز ان سے بد عہدی نہ کی جائے اور طاقت سے زیادہ ان پر کوئی بار نہ ڈالا جائے۔ سیدنا حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوحفصہ ہے۔ عدوی قریشی ہیں۔ نبوت کے چھٹے سال اسلام میں داخل ہوئے بعضوں نے کہاں کہ پانچویں سال میں۔ ان سے پہلے چالیس مرد اور گیارہ عورتیں اسلام لاچکی تھیں اور کہا جاتا ہے کہ چالیسویں مرد حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہی تھے۔ ان کے اسلام قبول کرنے کے دن ہی سے اسلام نمایاں ہونا شروع ہوگیا۔ اسی وجہ سے ان کا لقب فاروق ہوا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا تھا کہ آپ کا لقب فاروق کیسے ہوا؟ فرمایا کہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ میرے اسلام سے تین دن پہلے مسلمان ہوچکے تھے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اسلام کے لیے میرا سینہ بھی کھول دیا تو میں نے کہا اللہ لا الہ الا ہولہ الا سماءالحسنی اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اسی کے لیے سب اچھے نام ہیں۔ اس کے بعد کوئی جان مجھ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جان سے پیاری نہ تھی۔ اس کے بعد میں نے دریافت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہاں تشریف فرما ہیں تو میری بہن نے مجھ کو بتلایا کہ آپ دار ارقم بن ابی ارقم میں جو کوہ صفا کے پاس ہے‘ تشریف رکھتے ہیں۔ میں ابو ارقم کے مکان پر حاضر ہوا جب کہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ بھی آپ کے صحابہ کے ساتھ مکان میں موجود تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی گھر میں تشریف فرما تھے۔ میں نے دروازے کو پیٹا تو لوگوں نے نکلنا چاہا۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تم لوگوں کو کیاہوگیا؟ سب نے کہا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ آئے ہیں پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور مجھے کپڑوں سے پکڑلیا۔ پھر خوب زور سے مجھ کو اپنی طرف کھینچا کہ میں رک نہ سکااور گھٹنے کے بل گرگیا۔ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ عمر اس کفر سے کب تک باز نہیں آؤ گے؟ تو بے ساختہ میری زبان سے نکلا اشہدان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ واشہدان محمدا عبدہ ورسولہ اس پر تمام دارارقم کے لوگوں نے نعرہ تکبیر بلند کیا کہ جس کی آواز حرم شریف میں سنی گئی۔ اس کے بعد میں نے کہا کہ یا رسول اللہ! کیا ہم موت اور حیات میں دین حق پر نہیں ہیں؟ آپ نے فرمایا کیوں نہیں قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم سب حق پر ہو‘ اپنی موت میں بھی اور حیات میں بھی۔ اس پر میں نے عرض کیاکہ پھر اس حق کو چھپانے کا کیا مطلب۔ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ہم ضرور حق کولے کر باہر نکلیں گے۔ چنانچہ ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دو صفوں کے درمیان نکالا۔ ایک صف میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اور دوسری صف میں میں تھا اور میرے اندر جوش ایمان کی وجہ سے ایک چکی جیسی گڑ گڑاہٹ تھی۔ یہاں تک کہ ہم مسجد حرام میں پہنچ گئے تو مجھ کو اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو قریش نے دیکھا اور ان کو اس قدر صدمہ پہنچا کہ ایسا صدمہ انہیں اس سے پہلے کبھی نہ پہنچا تھا۔ اسی دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا نام فاروق رکھ دیا کہ اللہ نے میری وجہ سے حق اور باطل میں فرق کردیا۔ روایتوں میں ہے کہ آپ کے اسلام لانے پر حضرت جبرئیل امین علیہ السلام تشریف لائے اور فرمایا کہ اے اللہ کے رسول! آج عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے سے تمام آسمانوں والے بے حد خوش ہوئے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قسم خدا کی میں یقین رکھتا ہوں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے علم کو ترازو کے ایک پلڑے میں رکھا جائے اور دوسری میں تمام زندہ انسانوں کاعلم تو یقینا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے علم والا پلڑا جھک جائے گا۔ آپ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تمام غزوات میں شریک ہوئے اور یہ پہلے خلیفہ ہیں جو امیرالمؤمنین لقب سے پکارے گئے۔ حضرت عمر گورے رنگ والے لمبے قدوالے تھے۔ سر کے بال اکثر گر گئے تھے۔ آنکھوں میں سرخ جھلک رہا کرتی تھی۔ اپنی خلافت میں تمام امور حکومت کو احسن طریق پر انجام دیا۔ آخرمدینہ میں بدھ کے دن 26ذی الحجہ 23ھ میں مغیرہ بن شعبہ کے غلام ابولولوءنے آپ کو خنجر سے زخمی کیا اور یکم محرم الحرام کو آپ نے جام شہادت نوش فرمایا۔ تریسٹھ سال کی عمر پائی۔ مدت خلافت دس سال چھ ماہ ہے۔ آپ کے جنازہ کی نماز حضرت صہیب رومی نے پڑھائی۔ وفات سے قبل حجرئہ نبوی میں دفن ہونے کے لیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے باضابطہ اجازت حاصل کرلی۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں۔ وفیہ الحرص علی مجاورۃ الصالحین فی القبور طمعا فی اصابۃ الرحمۃ اذا نزلت علیہم وفی دعاءمن یزورہم من اہل الخیر یعنی آپ کے اس واقعہ میں یہ پہلو بھی ہے کہ صالحین بندوں کے پڑوس میں دفن ہونے کی حرص کرنا درست ہے۔ اس طمع میں کہ ان صالحین بندوں پر رحمت الٰہی کا نزول ہوگا تو اس میں ان کو بھی شرکت کا موقع ملے گا اور جواہل خیر ان کے لیے دعائے خیر کرنے آئیں گے وہ ان کی قبر پر بھی دعا کرتے جائیں گے۔ اس طرح دعاؤں میں بھی شرکت رہے گی۔ سبحان اللہ کیا مقام ہے! ہر سال لاکھوں مسلمان مدینہ شریف پہنچ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام پڑھتے ہیں۔ ساتھ ہی آپ کے جان نثاروں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور فاروق اعظم رضی اللہ عنہ پر بھی سلام بھیجنے کا موقع مل جاتا ہے۔ سچ ہے نگاہ ناز جسے آشنائے راز کرے وہ اپنی خوبی قسمت پہ کیوں نہ ناز کرے عشرہ مبشرہ میں سے یہی لوگ موجود تھے جن کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خلیفہ بنانے والی کمیٹی کے لیے نام لیا۔ ابوعبیدہ بن جراح کا انتقال ہوچکا تھا اور سعید بن زید گوزندہ تھے مگر وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے رشہ دار یعنی چچا زاد بھائی ہوتے تھے‘ اس لیے ان کا بھی نام نہیں لیا۔ دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے بتاکید فرمایا کہ دیکھو میرے بیٹے عبداللہ کا خلافت میں کوئی حق نہیں ہے۔ یہ آپ کا وہ کارنامہ ہے جس پر آج کی نام نہاد جمہوریتیں ہزارہا بار قربان کی جاسکتی ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی کسرنفسی کا یہ عالم ہے کہ ساری عمر خلافت کمال عدل کے ساتھ چلائی پھر بھی اب آخر وقت میں اسی کو غنیمت تصور فرمارہے ہیں کہ خلافت کا نہ ثواب ملے نہ عذاب ہو بلکہ برابر برابر میں اُتر جائے تو یہی غنیمت ہے۔ اخیر میں آپ نے مہاجرین وانصار کے لیے بہترین وصیتیں فرمائیں اور سب سے بڑا کارنامہ یہ کہ ان غیر مسلموں کے لیے جو خلافت اسلامی کے زیر نگین امن وامان کی زندگی گزارتے ہیں‘ خصوصی وصیت فرمائی کہ ہرگز ہرگز ان سے بد عہدی نہ کی جائے اور طاقت سے زیادہ ان پر کوئی بار نہ ڈالا جائے۔