‌صحيح البخاري - حدیث 1389

كِتَابُ الجَنَائِزِ بَابُ مَا جَاءَ فِي قَبْرِ النَّبِيِّ ﷺ وَأَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ ؓ صحيح حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ عَنْ هِشَامٍ ح و حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا أَبُو مَرْوَانَ يَحْيَى بْنُ أَبِي زَكَرِيَّاءَ عَنْ هِشَامٍ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ إِنْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيَتَعَذَّرُ فِي مَرَضِهِ أَيْنَ أَنَا الْيَوْمَ أَيْنَ أَنَا غَدًا اسْتِبْطَاءً لِيَوْمِ عَائِشَةَ فَلَمَّا كَانَ يَوْمِي قَبَضَهُ اللَّهُ بَيْنَ سَحْرِي وَنَحْرِي وَدُفِنَ فِي بَيْتِي

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 1389

کتاب: جنازے کے احکام و مسائل باب: نبی کریمﷺ اور صحابہ کی قبروں کا بیان ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا‘ کہا کہ مجھ سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا اور ان سے ہشام بن عروہ نے ( دوسری سند۔ امام بخاری نے کہا ) اور مجھ سے محمد بن حرب نے بیان کیا‘ کہا ہم سے ابو مروان یحیٰی بن ابی زکریا نے بیان کیا‘ ان سے ہشام بن عروہ نے‘ ان سے عروہ بن زبیر نے اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مرض الوفات میں گویا اجازت لینا چاہتے تھے ( دریافت فرماتے ) آج میری باری کن کے یہاں ہے۔ کل کن کے یہاں ہوگی؟ عائشہ رضی اللہ عنہا کی باری کے دن کے متعلق خیال فرماتے تھے کہ بہت دن بعد آئے گی۔ چنانچہ جب میری باری آئی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی روح اس حال میں قبض کی کہ آپ میرے سینے سے ٹیک لگائے ہوئے تھے اور میرے ہی گھر میں آپ دفن کئے گئے۔
تشریح : 29 صفر 11 ھ کا دن تھا کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف شروع ہوئی اور ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جو رومال حضور کے سر مبارک پر تھا اور بخار کی وجہ سے ایسا گرم تھا کہ میرے ہاتھ کو برداشت نہ ہوسکی۔ آپ 13 دن یا 14 دن بیمار رہے۔ آخری ہفتہ آپ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے گھر پر ہی پورا فرمایا۔ ان ایام میں بیشتر آپ مسجد میں جاکر نماز بھی پڑھاتے رہے مگر چار روز قبل حالت بہت دگر گوں ہوگئی۔ آخر 12 ربیع الاول 11 ھ یوم دو شنبہ بوقت چاشت آپ دنیائے فانی سے منہ موڑ کر ملاءاعلیٰ سے جاملے۔ عمر مبارک 63 سال قمری پر چار دن تھی اللہم صلی علی محمد وعلی آل محمد وفات پر صحابہ کرام نے آپ کے دفن کے متعلق سوچا تو آخری رائے یہی قرار پائی کہ حجرہ مبارکہ میں آپ کو دفن کیا جائے کیونکہ انبیاءجہاں انتقال کرتے ہیں اس جگہ دفن کئے جاتے ہیں۔ یہی حجرہ مبارکہ ہے جو آج گنبد خضراءکے نام سے دنیا کے کروڑہا انسانوں کا مرجع عقیدت ہے۔ حضرت امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر شریف کی نشان دہی کرتے ہوئے یہ ثابت فرمایا کہ مرنے والے کو اگر اس کے گھر ہی میں دفن کردیا جائے تو شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ آپ کے اخلاق حسنہ میں سے ہے کہ آپ ایام بیماری میں دوسری بیویوں سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں جانے کے لیے معذرت فرماتے رہے۔ یہاں تک کہ جملہ ازواج مطہرات نے آپ کو حجرہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے لیے اجازت دے دی اور آخری ایام آپ نے وہیں بسر کئے۔ اس سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی بھی کمال فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ تف ہے ان نام نہاد مسلمانوں پر جو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا جیسی مایہ ناز اسلامی خاتون کی فضیلت کا انکار کریں۔ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت عطا فرمائے۔ 29 صفر 11 ھ کا دن تھا کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف شروع ہوئی اور ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جو رومال حضور کے سر مبارک پر تھا اور بخار کی وجہ سے ایسا گرم تھا کہ میرے ہاتھ کو برداشت نہ ہوسکی۔ آپ 13 دن یا 14 دن بیمار رہے۔ آخری ہفتہ آپ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے گھر پر ہی پورا فرمایا۔ ان ایام میں بیشتر آپ مسجد میں جاکر نماز بھی پڑھاتے رہے مگر چار روز قبل حالت بہت دگر گوں ہوگئی۔ آخر 12 ربیع الاول 11 ھ یوم دو شنبہ بوقت چاشت آپ دنیائے فانی سے منہ موڑ کر ملاءاعلیٰ سے جاملے۔ عمر مبارک 63 سال قمری پر چار دن تھی اللہم صلی علی محمد وعلی آل محمد وفات پر صحابہ کرام نے آپ کے دفن کے متعلق سوچا تو آخری رائے یہی قرار پائی کہ حجرہ مبارکہ میں آپ کو دفن کیا جائے کیونکہ انبیاءجہاں انتقال کرتے ہیں اس جگہ دفن کئے جاتے ہیں۔ یہی حجرہ مبارکہ ہے جو آج گنبد خضراءکے نام سے دنیا کے کروڑہا انسانوں کا مرجع عقیدت ہے۔ حضرت امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر شریف کی نشان دہی کرتے ہوئے یہ ثابت فرمایا کہ مرنے والے کو اگر اس کے گھر ہی میں دفن کردیا جائے تو شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ آپ کے اخلاق حسنہ میں سے ہے کہ آپ ایام بیماری میں دوسری بیویوں سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں جانے کے لیے معذرت فرماتے رہے۔ یہاں تک کہ جملہ ازواج مطہرات نے آپ کو حجرہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے لیے اجازت دے دی اور آخری ایام آپ نے وہیں بسر کئے۔ اس سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی بھی کمال فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ تف ہے ان نام نہاد مسلمانوں پر جو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا جیسی مایہ ناز اسلامی خاتون کی فضیلت کا انکار کریں۔ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت عطا فرمائے۔