‌صحيح البخاري - حدیث 1387

كِتَابُ الجَنَائِزِ بَابُ مَوْتِ يَوْمِ الِاثْنَيْنِ صحيح حَدَّثَنَا مُعَلَّى بْنُ أَسَدٍ حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ عَنْ هِشَامٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ دَخَلْتُ عَلَى أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ فِي كَمْ كَفَّنْتُمْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ فِي ثَلَاثَةِ أَثْوَابٍ بِيضٍ سَحُولِيَّةٍ لَيْسَ فِيهَا قَمِيصٌ وَلَا عِمَامَةٌ وَقَالَ لَهَا فِي أَيِّ يَوْمٍ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ قَالَ فَأَيُّ يَوْمٍ هَذَا قَالَتْ يَوْمُ الِاثْنَيْنِ قَالَ أَرْجُو فِيمَا بَيْنِي وَبَيْنَ اللَّيْلِ فَنَظَرَ إِلَى ثَوْبٍ عَلَيْهِ كَانَ يُمَرَّضُ فِيهِ بِهِ رَدْعٌ مِنْ زَعْفَرَانٍ فَقَالَ اغْسِلُوا ثَوْبِي هَذَا وَزِيدُوا عَلَيْهِ ثَوْبَيْنِ فَكَفِّنُونِي فِيهَا قُلْتُ إِنَّ هَذَا خَلَقٌ قَالَ إِنَّ الْحَيَّ أَحَقُّ بِالْجَدِيدِ مِنْ الْمَيِّتِ إِنَّمَا هُوَ لِلْمُهْلَةِ فَلَمْ يُتَوَفَّ حَتَّى أَمْسَى مِنْ لَيْلَةِ الثُّلَاثَاءِ وَدُفِنَ قَبْلَ أَنْ يُصْبِحَ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 1387

کتاب: جنازے کے احکام و مسائل باب: پیر کے دن مرنے کی فضیلت کا بیان ہم سے معلی بن اسد نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا‘ ان سے ہشام بن عروہ نے‘ ان سے ان کے باپ نے اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ میں ( والد ماجد حضرت ) ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ( ان کی مرض الموت میں ) حاضر ہوئی تو آپ نے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تم لوگوں نے کتنے کپڑوں کا کفن دیا تھا؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ تین سفید دھلے ہوئے کپڑوں کا۔ آپ کو کفن میں قمیض اور عمامہ نہیں دیا گیا تھا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے یہ بھی پوچھا کہ آپ کی وفات کس دن ہوئی تھی۔ انہوں نے جواب دیا کہ پیر کے دن۔ پھر پوچھا کہ آج کون سا دن ہے؟ انہوں نے کہا آج پیر کا دن ہے۔ آپ نے فرمایا کہ پھر مجھے بھی امید ہے کہ اب سے رات تک میں بھی رخصت ہوجاؤں گا۔ اس کے بعد آپ نے اپنا کپڑا دیکھا جسے مرض کے دوران میں آپ پہن رہے تھے۔ اس کپڑے پر زعفران کا دھبہ لگا ہوا تھا۔ آپ نے فرمایا میرے اس کپڑے کو دھولینا اور اس کے ساتھ دو اور ملا لینا پھر مجھے کفن انہیں کا دینا۔ میں نے کہا کہ یہ تو پرانا ہے۔ فرمایا کہ زندہ آدمی نئے کا مردے سے زیادہ مستحق ہے‘ یہ تو پیپ اور خون کی نذر ہوجائے گا۔ پھر منگل کی رات کا کچھ حصہ گزرنے پر آپ کا انتقال ہوا اور صبح ہونے سے پہلے آپ کو دفن کیا گیا۔
تشریح : سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے پیر کے دن موت کی آرزو کی‘ اس سے باب کا مطلب ثابت ہوا۔ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے کفن کے لیے اپنے روز مرہ کے کپڑوں کو ہی زیادہ پسند فرمایا جن میں آپ روزانہ عبادت الٰہی کیا کرتے تھے۔ آپ کی صاحبزادی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جب آپ کا یہ حال دیکھا تو وہ ہائے کرنے لگیں مگر آپ نے فرمایا کہ ایسا نہ کرو بلکہ اس آیت کو پڑھو وجاءت سکرۃ الموت بالحق یعنی آج سکرات موت کا وقت آگیا۔ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کے فضائل ومناقب کے لیے دفتر بھی ناکافی ہے رضی اللہ عنہ وارضاہ علامہ ابن حجر فرماتے ہیں: وروی ابوداؤد من حدیث علی مرفوعاً لا تغالوا فی الکفن فانہ یسلب سریعا ولا یعارضہ حدیث جابر فی الامر بتحسین الکفن اخرجہ مسلم فانہ یجمع بینہما بحمل التحسین علی الصفۃ وحمل المغالات علی الثمن قبل وقیل التحسین فی حق المیت فاذا اوصی بترکہ اتبع کما فعل الصدیق ویحتمل ان یکون اختار ذالک الثوب بعینہ لمعنی فیہ من التبرک بہ لکونہ صار الیہ من النبی صلی اللہ علیہ وسلم اولکونہ جاہدا فیہ اوتعبد فیہ ویویدہ مارواہ ابن سعد من طریق القاسم بن محمد بن ابی بکر قال قال ابوبکر کفنونی فی ثوبی الذین کنت اصلی فیہما ( فتح الباری‘ ج: 6ص: 5 ) اور ابوداؤ نے حدیث علی رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت کیا ہے کہ قیمتی کپڑا کفن میں نہ دو وہ تو جلد ہی ختم ہوجاتا ہے۔ حدیث جابر میں عمدہ کفن دینے کا بھی حکم آیا ہے۔ عمدہ سے مراد صاف ستھرا کپڑا اور قیمتی سے گراں قیمت کپڑا مراد ہے۔ ہردو حدیث میں یہی تطبیق ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ تحسین میت کے حق میں ہے اگر وہ چھوڑنے کی وصیت کرجائے تو اس کی اتباع کی جائے گی۔ جیسا کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے کیا۔ یہ بھی احتمال ہے کہ حضرت صدیق اکبر نے اپنے ان کپڑوں کو بطور تبرک پسند فرمایا ہو کیونکہ وہ آپ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل ہوئے تھے یا یہ کہ ان میں آپ نے بڑے بڑے مجاہدے کئے تھے یا ان میں عبادت الٰہی کی تھی۔ اس کی تائید میں ایک روایت میں آپ کے یہ لفظ بھی منقول ہیں کہ مجھے میرے ان ہی دو کپڑوں میں کفن دینا جن میں میں نے نمازیں ادا کی ہیں۔ وفی ہذا الحدیث استحباب التکفین فی الثیاب البیض وتثلیث الکفن وطلب الموافقۃ فیما وقع للاکابر تبرکا بذلک وفیہ جواز التکفین فی الثیاب المغسولۃ وایثار الحی بالجدید والدفن باللیل وفضل ابی بکر وصحۃ فراستہ وثباتہ عند وفاتہ وفیہ اخذ المرءالعلم عمن دونہ وقال ابوعمر فیہ ان التکفین فی الثوب الجدید والخلق سوائ۔ یعنی اس حدیث سے ثابت ہوا کہ سفید کپڑوں کا کفن دینا اور تین کپڑے کفن میں استعمال کرنا مستحب ہے اور اکابر سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بطور تبرک موافقت طلب کرنا بھی مستحب ہے۔ جیسے صدیق اکبررضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے یوم وفات پیر کے دن کی موافقت کی خواہش ظاہر فرمائی اور اس حدیث دھلے ہوئے کپڑوں کا کفن دینا بھی جائز ثابت ہوا اور یہ بھی کہ عمدہ نئے کپڑوں کے لیے زندوں پر ایثار کرنا مستحب ہے جیسا کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اور رات میں دفن کرنے کا جواز بھی ثابت ہوا اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی فضیلت وفراست بھی ثابت ہوئی اور یہ بھی ثابت ہوا کہ علم حاصل کرنے میں بڑوں کے لیے چھوٹوں سے بھی استفادہ جائز ہے۔ جیسا کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنی صاحبزادی سے استفادہ فرمایا۔ ابو عمر نے کہا کہ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ نئے اور پرانے کپڑوں کا کفن دینا برابر ہے۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے پیر کے دن موت کی آرزو کی‘ اس سے باب کا مطلب ثابت ہوا۔ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے کفن کے لیے اپنے روز مرہ کے کپڑوں کو ہی زیادہ پسند فرمایا جن میں آپ روزانہ عبادت الٰہی کیا کرتے تھے۔ آپ کی صاحبزادی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جب آپ کا یہ حال دیکھا تو وہ ہائے کرنے لگیں مگر آپ نے فرمایا کہ ایسا نہ کرو بلکہ اس آیت کو پڑھو وجاءت سکرۃ الموت بالحق یعنی آج سکرات موت کا وقت آگیا۔ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کے فضائل ومناقب کے لیے دفتر بھی ناکافی ہے رضی اللہ عنہ وارضاہ علامہ ابن حجر فرماتے ہیں: وروی ابوداؤد من حدیث علی مرفوعاً لا تغالوا فی الکفن فانہ یسلب سریعا ولا یعارضہ حدیث جابر فی الامر بتحسین الکفن اخرجہ مسلم فانہ یجمع بینہما بحمل التحسین علی الصفۃ وحمل المغالات علی الثمن قبل وقیل التحسین فی حق المیت فاذا اوصی بترکہ اتبع کما فعل الصدیق ویحتمل ان یکون اختار ذالک الثوب بعینہ لمعنی فیہ من التبرک بہ لکونہ صار الیہ من النبی صلی اللہ علیہ وسلم اولکونہ جاہدا فیہ اوتعبد فیہ ویویدہ مارواہ ابن سعد من طریق القاسم بن محمد بن ابی بکر قال قال ابوبکر کفنونی فی ثوبی الذین کنت اصلی فیہما ( فتح الباری‘ ج: 6ص: 5 ) اور ابوداؤ نے حدیث علی رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت کیا ہے کہ قیمتی کپڑا کفن میں نہ دو وہ تو جلد ہی ختم ہوجاتا ہے۔ حدیث جابر میں عمدہ کفن دینے کا بھی حکم آیا ہے۔ عمدہ سے مراد صاف ستھرا کپڑا اور قیمتی سے گراں قیمت کپڑا مراد ہے۔ ہردو حدیث میں یہی تطبیق ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ تحسین میت کے حق میں ہے اگر وہ چھوڑنے کی وصیت کرجائے تو اس کی اتباع کی جائے گی۔ جیسا کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے کیا۔ یہ بھی احتمال ہے کہ حضرت صدیق اکبر نے اپنے ان کپڑوں کو بطور تبرک پسند فرمایا ہو کیونکہ وہ آپ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل ہوئے تھے یا یہ کہ ان میں آپ نے بڑے بڑے مجاہدے کئے تھے یا ان میں عبادت الٰہی کی تھی۔ اس کی تائید میں ایک روایت میں آپ کے یہ لفظ بھی منقول ہیں کہ مجھے میرے ان ہی دو کپڑوں میں کفن دینا جن میں میں نے نمازیں ادا کی ہیں۔ وفی ہذا الحدیث استحباب التکفین فی الثیاب البیض وتثلیث الکفن وطلب الموافقۃ فیما وقع للاکابر تبرکا بذلک وفیہ جواز التکفین فی الثیاب المغسولۃ وایثار الحی بالجدید والدفن باللیل وفضل ابی بکر وصحۃ فراستہ وثباتہ عند وفاتہ وفیہ اخذ المرءالعلم عمن دونہ وقال ابوعمر فیہ ان التکفین فی الثوب الجدید والخلق سوائ۔ یعنی اس حدیث سے ثابت ہوا کہ سفید کپڑوں کا کفن دینا اور تین کپڑے کفن میں استعمال کرنا مستحب ہے اور اکابر سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بطور تبرک موافقت طلب کرنا بھی مستحب ہے۔ جیسے صدیق اکبررضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے یوم وفات پیر کے دن کی موافقت کی خواہش ظاہر فرمائی اور اس حدیث دھلے ہوئے کپڑوں کا کفن دینا بھی جائز ثابت ہوا اور یہ بھی کہ عمدہ نئے کپڑوں کے لیے زندوں پر ایثار کرنا مستحب ہے جیسا کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اور رات میں دفن کرنے کا جواز بھی ثابت ہوا اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی فضیلت وفراست بھی ثابت ہوئی اور یہ بھی ثابت ہوا کہ علم حاصل کرنے میں بڑوں کے لیے چھوٹوں سے بھی استفادہ جائز ہے۔ جیسا کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنی صاحبزادی سے استفادہ فرمایا۔ ابو عمر نے کہا کہ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ نئے اور پرانے کپڑوں کا کفن دینا برابر ہے۔