‌صحيح البخاري - حدیث 1381

كِتَابُ الجَنَائِزِ بَابُ مَا قِيلَ فِي أَوْلاَدِ المُسْلِمِينَ صحيح حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ صُهَيْبٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا مِنْ النَّاسِ مُسْلِمٌ يَمُوتُ لَهُ ثَلَاثَةٌ مِنْ الْوَلَدِ لَمْ يَبْلُغُوا الْحِنْثَ إِلَّا أَدْخَلَهُ اللَّهُ الْجَنَّةَ بِفَضْلِ رَحْمَتِهِ إِيَّاهُمْ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 1381

کتاب: جنازے کے احکام و مسائل باب: مسلمانوں کی نابالغ اولاد کہاں رہے گی؟ ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا انہوں نے کہا ہم سے اسماعیل بن علیہ نے بیان کیا‘ ان سے عبدالعزیزبن صہیب نے بیان کیا اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس مسلمان کے بھی تین نابالغ بچے مرجائیں تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل ورحمت سے جوان بچوں پر کرے گا‘ ان کو بہشت میں لے جائے گا۔
تشریح : باب منعقد کرنے اور اس پر حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ لانے سے امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ کا مقصد صاف ظاہر ہے کہ مسلمانوں کی اولاد جو نابالغی میں مرجائے وہ جنتی ہے‘ تب ہی تو وہ اپنے والدین کے لیے دوزخ سے روک بن سکیں گے۔ اکثر علماءکا یہی قول ہے اور امام احمد رحمہ اللہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ مسلمانوں کی اولاد جنت میں ہوگی۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی وَالَّذِینَ اٰمَنُو وَاتَّبَعَتہُم ذُرِّیَّتُہُم ( الطور: 21 ) یعنی جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے بھی ان کی اتباع کی ہم ان کی اولاد کو ان کے ساتھ جنت میں جمع کردیں گے۔ قال النووی اجمع من یعتد بہ من علماءالمسلمین علی ان من مات من اطفال المسلمین فہو من اہل الجنۃ وتوقف بعضہم الحدیث عائشۃ یعنی الذی اخرجہ مسلم بلفظ توفی صبی من الانصار فقلت طوبیٰ لہ لم یعمل سواولم یدر کہ فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم اوغیر ذلک یاعائشۃ! ان اللہ خلق للجنۃ اہلا الحدیث قال والجواب عنہ انہ لعلہ نہا ہا عن المسارعۃ الی القطع من غیر دلیل اوقال ذلک قبل ان یعلم ان اطفال المسلمین فی الجنۃ ( فتح الباری ) یعنی امام نووی نے کہاکہ علماءاسلام کی ایک بڑی تعداد کا اس پر اجماع ہے کہ جو مسلمان بچہ انتقال کر جائے وہ جنتی ہے اور بعض علماءنے اس پر توقف بھی کیا ہے۔ جن کی دلیل حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا والی حدیث ہے جسے مسلم نے روایت کیا ہے کہ انصار کے ایک بچے کا انتقال ہوگیا‘ میں نے کہا کہ اس کے لیے مبارک ہو اس بچے نے کبھی کوئی برا کام نہیں کیا یا یہ کہ کسی برے کام نہیں اس کو نہیں پایا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا کہ اے عائشہ! کیا اس خیال کے خلاف نہیں ہوسکتا‘ بے شک اللہ نے جنت کے لیے بھی ایک مخلوق کو پیدا فرمایا ہے اور دوزخ کے لیے بھی۔ اس شبہ کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ شاید بغیر دلیل کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس بچے کے قطعی جنتی ہونے کا فیصلہ دینے سے منع فرمایا یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شاید اس کا اظہار اس وقت فرمایا ہو جب کہ آپ کو اطفال المسلمین کے بارے میں کوئی قطعی علم نہیں دیا گیا تھا۔ بعد میں آپ کو اللہ پاک نے بتلادیا کہ مسلمانوں کی اولاد یقینا جنتی ہوگی۔ باب منعقد کرنے اور اس پر حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ لانے سے امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ کا مقصد صاف ظاہر ہے کہ مسلمانوں کی اولاد جو نابالغی میں مرجائے وہ جنتی ہے‘ تب ہی تو وہ اپنے والدین کے لیے دوزخ سے روک بن سکیں گے۔ اکثر علماءکا یہی قول ہے اور امام احمد رحمہ اللہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ مسلمانوں کی اولاد جنت میں ہوگی۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی وَالَّذِینَ اٰمَنُو وَاتَّبَعَتہُم ذُرِّیَّتُہُم ( الطور: 21 ) یعنی جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے بھی ان کی اتباع کی ہم ان کی اولاد کو ان کے ساتھ جنت میں جمع کردیں گے۔ قال النووی اجمع من یعتد بہ من علماءالمسلمین علی ان من مات من اطفال المسلمین فہو من اہل الجنۃ وتوقف بعضہم الحدیث عائشۃ یعنی الذی اخرجہ مسلم بلفظ توفی صبی من الانصار فقلت طوبیٰ لہ لم یعمل سواولم یدر کہ فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم اوغیر ذلک یاعائشۃ! ان اللہ خلق للجنۃ اہلا الحدیث قال والجواب عنہ انہ لعلہ نہا ہا عن المسارعۃ الی القطع من غیر دلیل اوقال ذلک قبل ان یعلم ان اطفال المسلمین فی الجنۃ ( فتح الباری ) یعنی امام نووی نے کہاکہ علماءاسلام کی ایک بڑی تعداد کا اس پر اجماع ہے کہ جو مسلمان بچہ انتقال کر جائے وہ جنتی ہے اور بعض علماءنے اس پر توقف بھی کیا ہے۔ جن کی دلیل حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا والی حدیث ہے جسے مسلم نے روایت کیا ہے کہ انصار کے ایک بچے کا انتقال ہوگیا‘ میں نے کہا کہ اس کے لیے مبارک ہو اس بچے نے کبھی کوئی برا کام نہیں کیا یا یہ کہ کسی برے کام نہیں اس کو نہیں پایا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا کہ اے عائشہ! کیا اس خیال کے خلاف نہیں ہوسکتا‘ بے شک اللہ نے جنت کے لیے بھی ایک مخلوق کو پیدا فرمایا ہے اور دوزخ کے لیے بھی۔ اس شبہ کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ شاید بغیر دلیل کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس بچے کے قطعی جنتی ہونے کا فیصلہ دینے سے منع فرمایا یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شاید اس کا اظہار اس وقت فرمایا ہو جب کہ آپ کو اطفال المسلمین کے بارے میں کوئی قطعی علم نہیں دیا گیا تھا۔ بعد میں آپ کو اللہ پاک نے بتلادیا کہ مسلمانوں کی اولاد یقینا جنتی ہوگی۔