كِتَابُ الجَنَائِزِ بَابُ ثَنَاءِ النَّاسِ عَلَى المَيِّتِ صحيح حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ هُوَ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي الْفُرَاتِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ قَالَ قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ وَقَدْ وَقَعَ بِهَا مَرَضٌ فَجَلَسْتُ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَمَرَّتْ بِهِمْ جَنَازَةٌ فَأُثْنِيَ عَلَى صَاحِبِهَا خَيْرًا فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَجَبَتْ ثُمَّ مُرَّ بِأُخْرَى فَأُثْنِيَ عَلَى صَاحِبِهَا خَيْرًا فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَجَبَتْ ثُمَّ مُرَّ بِالثَّالِثَةِ فَأُثْنِيَ عَلَى صَاحِبِهَا شَرًّا فَقَالَ وَجَبَتْ فَقَالَ أَبُو الْأَسْوَدِ فَقُلْتُ وَمَا وَجَبَتْ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ قَالَ قُلْتُ كَمَا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّمَا مُسْلِمٍ شَهِدَ لَهُ أَرْبَعَةٌ بِخَيْرٍ أَدْخَلَهُ اللَّهُ الْجَنَّةَ فَقُلْنَا وَثَلَاثَةٌ قَالَ وَثَلَاثَةٌ فَقُلْنَا وَاثْنَانِ قَالَ وَاثْنَانِ ثُمَّ لَمْ نَسْأَلْهُ عَنْ الْوَاحِدِ
کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
باب: لوگوں کی زبان پر میت کی تعریف
ہم سے عفان بن مسلم صفار نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے داؤد بن ابی الفرات نے‘ ان سے عبداللہ بن بریدہ نے‘ ان سے ابوالاسود دئلی نے کہ میں مدینہ حاضر ہوا۔ ان دنوں وہاں ایک بیماری پھیل رہی تھی۔ میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی خدمت میں تھا کہ ایک جنازہ سامنے سے گزرا۔ لوگ اس میت کی تعریف کرنے لگے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ واجب ہوگئی پھر ایک اور جنازہ گزرا، لوگ اس کی بھی تعریف کرنے لگے۔ اس مرتبہ بھی آپ نے ایسا ہی فرمایا کہ واجب ہوگئی۔ پھر تیسرا جنازہ نکلا‘ لوگ اس کی برائی کرنے لگے‘ اور اس مرتبہ بھی آپ نے یہی فرمایا کہ واجب ہوگئی۔ ابوالاسود دئلی نے بیان کیا کہ میں نے پوچھا کہ امیرالمؤمنین کیا چیز واجب ہوگئی؟ آپ نے فرمایا کہ میں نے اس وقت وہی کہا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جس مسلمان کی اچھائی پر چار شخص گواہی دے دیں اللہ اسے جنت میں داخل کرے گا۔ ہم نے کہا اور اگر تین گواہی دیں؟ آپ نے فرمایا کہ تین پر بھی‘ پھر ہم نے پوچھا اور اگر دو مسلمان گواہی دیں؟ آپ نے فرمایا کہ دو پر بھی۔ پھر ہم نے یہ نہیں پوچھا کہ اگر ایک مسلمان گواہی دے تو کیا؟
تشریح :
باب کا مقصد یہ ہے کہ مرنے والوں نیکیوں کا ذکر خیر کرنا اور اسے نیک لفظوں سے یاد کرنا بہتر ہے۔ علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: فی روایۃ النضربن انس عن ابیہ عند الحاکم کنت قاعدا عندالنبی صلی اللہ علیہ وسلم فمر بجنازۃ فقال ما ہذہ الجنازۃ قالوا جنازۃ فلان الفلانی کان یحب اللہ ورسولہ ویعمل بطاعۃ اللہ ویسعی فیہا وقال ضد ذلک فی التی اثنوا علیہا شرا ففیہ تفسیر ماابہم من الخیر والشر فی روایۃ عبدالعزیز والحاکم ایضا من حدیث جابر فقال بعضہم لنعم المرالقد کان عفیفا مسلما وفیہ ایضا فقال بعضہم بئس المرا کان ان کان لفظا غلیظا ( فتح الباری ) یعنی مسند حاکم میں نضربن انس عن ابیہ کی روایت میں یوں ہے کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک جنازہ وہاں سے گزارا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ یہ کس کا جنازہ ہے؟ لوگوں نے کہا کہ فلان بن فلان کا ہے جو اللہ اور رسول سے محبت رکھتا اور طاعت الٰہی میں عمل کرتا اور کوشاں رہتا تھا اور جس پر برائی کی گئی اس کا ذکر اس کے برعکس کیا گیا۔ پس اس روایت میں ابہام خیرو شر کی تفصیل مذکور ہے اور حاکم میں حدیث جابر بھی یوں ہے کہ بعض لوگوں نے کہا کہ یہ شخص بہت اچھا پاک دامن مسلمان تھا اور دوسرے کے لیے کہا گیا کہ وہ برا آدمی اور بداخلاق سخت کلامی کرنے والا تھا۔
خلاصہ یہ کہ مرنے والے کے متعلق اہل ایمان نیک لوگوں کی شہادت جس طور بھی ہو وہ بڑا وزن رکھتی ہے لفظ انتم شہداءاللہ فی الارض میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے۔ خود قرآن مجید میں بھی یہ مضمون ان لفظوں میں مذکور ہے وَکَذٰلِکَ جَعَلنٰکُم اُمَّۃً وَّسَطاً لِّتَکُونُوا شُہَدَائَ عَلَی النَّاسِ ( البقرۃ: ہم نے تم کو درمیانی امت بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ بن جاؤ۔ شہادت کی ایک صورت یہ بھی ہے جو یہاں حدیث میں مذکور ہے۔
باب کا مقصد یہ ہے کہ مرنے والوں نیکیوں کا ذکر خیر کرنا اور اسے نیک لفظوں سے یاد کرنا بہتر ہے۔ علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: فی روایۃ النضربن انس عن ابیہ عند الحاکم کنت قاعدا عندالنبی صلی اللہ علیہ وسلم فمر بجنازۃ فقال ما ہذہ الجنازۃ قالوا جنازۃ فلان الفلانی کان یحب اللہ ورسولہ ویعمل بطاعۃ اللہ ویسعی فیہا وقال ضد ذلک فی التی اثنوا علیہا شرا ففیہ تفسیر ماابہم من الخیر والشر فی روایۃ عبدالعزیز والحاکم ایضا من حدیث جابر فقال بعضہم لنعم المرالقد کان عفیفا مسلما وفیہ ایضا فقال بعضہم بئس المرا کان ان کان لفظا غلیظا ( فتح الباری ) یعنی مسند حاکم میں نضربن انس عن ابیہ کی روایت میں یوں ہے کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک جنازہ وہاں سے گزارا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ یہ کس کا جنازہ ہے؟ لوگوں نے کہا کہ فلان بن فلان کا ہے جو اللہ اور رسول سے محبت رکھتا اور طاعت الٰہی میں عمل کرتا اور کوشاں رہتا تھا اور جس پر برائی کی گئی اس کا ذکر اس کے برعکس کیا گیا۔ پس اس روایت میں ابہام خیرو شر کی تفصیل مذکور ہے اور حاکم میں حدیث جابر بھی یوں ہے کہ بعض لوگوں نے کہا کہ یہ شخص بہت اچھا پاک دامن مسلمان تھا اور دوسرے کے لیے کہا گیا کہ وہ برا آدمی اور بداخلاق سخت کلامی کرنے والا تھا۔
خلاصہ یہ کہ مرنے والے کے متعلق اہل ایمان نیک لوگوں کی شہادت جس طور بھی ہو وہ بڑا وزن رکھتی ہے لفظ انتم شہداءاللہ فی الارض میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے۔ خود قرآن مجید میں بھی یہ مضمون ان لفظوں میں مذکور ہے وَکَذٰلِکَ جَعَلنٰکُم اُمَّۃً وَّسَطاً لِّتَکُونُوا شُہَدَائَ عَلَی النَّاسِ ( البقرۃ: ہم نے تم کو درمیانی امت بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ بن جاؤ۔ شہادت کی ایک صورت یہ بھی ہے جو یہاں حدیث میں مذکور ہے۔