كِتَابُ الجَنَائِزِ بَابُ الجَرِيدِ عَلَى القَبْرِ صحيح حَدَّثَنَا يَحْيَى حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ مُجَاهِدٍ عَنْ طَاوُسٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ مَرَّ بِقَبْرَيْنِ يُعَذَّبَانِ فَقَالَ إِنَّهُمَا لَيُعَذَّبَانِ وَمَا يُعَذَّبَانِ فِي كَبِيرٍ أَمَّا أَحَدُهُمَا فَكَانَ لَا يَسْتَتِرُ مِنْ الْبَوْلِ وَأَمَّا الْآخَرُ فَكَانَ يَمْشِي بِالنَّمِيمَةِ ثُمَّ أَخَذَ جَرِيدَةً رَطْبَةً فَشَقَّهَا بِنِصْفَيْنِ ثُمَّ غَرَزَ فِي كُلِّ قَبْرٍ وَاحِدَةً فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ لِمَ صَنَعْتَ هَذَا فَقَالَ لَعَلَّهُ أَنْ يُخَفَّفَ عَنْهُمَا مَا لَمْ يَيْبَسَا
کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
باب: قبر پر کھجور کی ڈالیاں لگانا
ہم سے یحیٰی بن جعفر بیکندی نے بیان کیا‘ کہا ہم سے ابو معاویہ نے بیان کیا‘ ان سے اعمش نے‘ ان سے مجاہد نے‘ ان سے طاؤس نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایسی دو قبروں پر ہوا جن پر عذاب ہورہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان پر عذاب کسی بہت بڑی بات پر نہیں ہورہا ہے صرف یہ کہ ان میں ایک شخص پیشاب سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا شخص چغل خوری کیا کرتا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کی ایک ہری ڈالی لی اور اس کے دو ٹکڑے کرکے دونوں قبر پر ایک ایک ٹکڑا گاڑدیا۔ لوگوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم )! آپ نے ایسا کیوں کیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ شاید اس وقت تک کے لیے ان پر عذاب کچھ ہلکا ہوجائے جب تک یہ خشک نہ ہوں۔
تشریح :
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک قبر پر کھجور کی ڈالیاں لگادی تھیں۔ بعضوں نے یہ سمجھا کہ یہ مسنون ہے۔ بعضے کہتے ہیں کہ یہ آنخضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ تھا اور کسی کو ڈالیاں لگانے میں کوئی فائدہ نہیں۔ چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کا اثر اسی بات کو ثابت کرنے کے لیے لائے۔ ابن عمر اور بریدہ رضی اللہ عنہم کے اثر کو ابن سعد نے وصل کیا۔ خارجہ بن زید کے اثر کو امام بخاری رحمہ اللہ نے تاریخ صغیر میں وصل کیا۔ اس اثر اور اس کے بعد کے اثر کو بیان کرنے سے امام بخاری رحمہ اللہ کی غرض یہ ہے کہ قبروالے کو اس کے عمل ہی فائدہ دیتے ہیں۔ اونچی چیز لگانا جیسے شاخیں وغیرہ یا قبر کی عمارت اونچی بنانا یا قبر پر بیٹھنا یہ چیزیں ظاہر میں کوئی فائدہ یا نقصان دینے والی نہیں ہیں۔ یہ خارجہ بن زید اہل مدینہ کے سات فقہاءمیں سے ہیں۔ انہوں نے اپنے چچا یزید بن ثابت سے نقل کیا کہ قبر پر بیٹھنا اس کو مکروہ ہے جو اس پر پاخانہ یا پیشاب کرے۔ ( وحیدی )
علامہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: قال ابن رشید ویظہر من تصرف البخاری ان ذلک خاص بہما فلذلک عقبہ بقول ابن عمر انما یظلہ عملہ ( فتح الباری ) یعنی ابن رشید نے کہا کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے تصرف سے یہی ظاہر ہے کہ شاخوں کے گاڑنے کا عمل ان ہی دونوں قبروں کے ساتھ خاص تھا۔ اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ اس ذکر کے بعد ہی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا قول لائے ہیں کہ اس مرنے والے کا عمل ہی اس کو سایہ کرسکے گا۔ جن کی قبر پر خیمہ دیکھا گیا تھا وہ عبدالرحمن بن ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہما تھے اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے یہ خیمہ دور کرادیا تھا۔ قبروں پر بیٹھنے کے بارے میں جمہور کا قول یہی ہے کہ ناجائز ہے۔ اس بارے میں کئی ایک احادیث بھی وارد ہیں چند حدیث ملاحظہ ہوں۔
عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لان یجلس احدکم علی جمرۃ فتحرق ثیابہ فتخلص الی جلدہ خیرلہ من ان یجلس علی قبر رواہ الجماعۃ الا البخاری والترمذی یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی اگر کسی انگارے پر بیٹھے کہ وہ اس کے کپڑے اور جسم کو جلادے تو اس سے بہتر ہے کہ قبر پر بیٹھے۔ دوسری حدیث عمروبن حزم سے مروی ہے کہ رانی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم متکئا علی قبرفقال لاتوذصاحب ہذا القبراولاتوذوہ رواہ احمد یعنی مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک قبر پر تکیہ لگائے ہوئے دیکھا تو آپ نے فرمایا کہ اس قبر والے کو تکلیف نہ دے۔ ان ہی احادیث کی بناپر قبروں پر بیٹھنا منع ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل جو مذکور ہوا کہ آپ قبروں پر بیٹھا کرتے تھے سو شاید ان کا خیال یہ ہوکہ بیٹھنا اس کے لیے منع ہے جو اس پر پاخانہ پیشاب کرے۔ مگر دیگر احادیث کی بناپر مطلق بیٹھنا بھی منع ہے جیسا کہ مذکور ہوا یا ان کا قبر پر بیٹھنے سے مراد صرف ٹیک لگانا ہے نہ کہ اوپر بیٹھنا۔
حدیث مذکور سے قبر کا عذاب بھی ثابت ہوا جو برحق ہے جو کئی آیات قرآنی واحادیث نبوی سے ثابت ہے۔ جو لوگ عذاب قبر کا انکار کرتے اور اپنے آپ کو مسلمان کہلاتے ہیں۔ وہ قرآن وحدیث سے بے بہرہ اور گمراہ ہیں۔ ہداہم اللہ۔ آمین
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک قبر پر کھجور کی ڈالیاں لگادی تھیں۔ بعضوں نے یہ سمجھا کہ یہ مسنون ہے۔ بعضے کہتے ہیں کہ یہ آنخضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ تھا اور کسی کو ڈالیاں لگانے میں کوئی فائدہ نہیں۔ چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کا اثر اسی بات کو ثابت کرنے کے لیے لائے۔ ابن عمر اور بریدہ رضی اللہ عنہم کے اثر کو ابن سعد نے وصل کیا۔ خارجہ بن زید کے اثر کو امام بخاری رحمہ اللہ نے تاریخ صغیر میں وصل کیا۔ اس اثر اور اس کے بعد کے اثر کو بیان کرنے سے امام بخاری رحمہ اللہ کی غرض یہ ہے کہ قبروالے کو اس کے عمل ہی فائدہ دیتے ہیں۔ اونچی چیز لگانا جیسے شاخیں وغیرہ یا قبر کی عمارت اونچی بنانا یا قبر پر بیٹھنا یہ چیزیں ظاہر میں کوئی فائدہ یا نقصان دینے والی نہیں ہیں۔ یہ خارجہ بن زید اہل مدینہ کے سات فقہاءمیں سے ہیں۔ انہوں نے اپنے چچا یزید بن ثابت سے نقل کیا کہ قبر پر بیٹھنا اس کو مکروہ ہے جو اس پر پاخانہ یا پیشاب کرے۔ ( وحیدی )
علامہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: قال ابن رشید ویظہر من تصرف البخاری ان ذلک خاص بہما فلذلک عقبہ بقول ابن عمر انما یظلہ عملہ ( فتح الباری ) یعنی ابن رشید نے کہا کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے تصرف سے یہی ظاہر ہے کہ شاخوں کے گاڑنے کا عمل ان ہی دونوں قبروں کے ساتھ خاص تھا۔ اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ اس ذکر کے بعد ہی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا قول لائے ہیں کہ اس مرنے والے کا عمل ہی اس کو سایہ کرسکے گا۔ جن کی قبر پر خیمہ دیکھا گیا تھا وہ عبدالرحمن بن ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہما تھے اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے یہ خیمہ دور کرادیا تھا۔ قبروں پر بیٹھنے کے بارے میں جمہور کا قول یہی ہے کہ ناجائز ہے۔ اس بارے میں کئی ایک احادیث بھی وارد ہیں چند حدیث ملاحظہ ہوں۔
عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لان یجلس احدکم علی جمرۃ فتحرق ثیابہ فتخلص الی جلدہ خیرلہ من ان یجلس علی قبر رواہ الجماعۃ الا البخاری والترمذی یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی اگر کسی انگارے پر بیٹھے کہ وہ اس کے کپڑے اور جسم کو جلادے تو اس سے بہتر ہے کہ قبر پر بیٹھے۔ دوسری حدیث عمروبن حزم سے مروی ہے کہ رانی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم متکئا علی قبرفقال لاتوذصاحب ہذا القبراولاتوذوہ رواہ احمد یعنی مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک قبر پر تکیہ لگائے ہوئے دیکھا تو آپ نے فرمایا کہ اس قبر والے کو تکلیف نہ دے۔ ان ہی احادیث کی بناپر قبروں پر بیٹھنا منع ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل جو مذکور ہوا کہ آپ قبروں پر بیٹھا کرتے تھے سو شاید ان کا خیال یہ ہوکہ بیٹھنا اس کے لیے منع ہے جو اس پر پاخانہ پیشاب کرے۔ مگر دیگر احادیث کی بناپر مطلق بیٹھنا بھی منع ہے جیسا کہ مذکور ہوا یا ان کا قبر پر بیٹھنے سے مراد صرف ٹیک لگانا ہے نہ کہ اوپر بیٹھنا۔
حدیث مذکور سے قبر کا عذاب بھی ثابت ہوا جو برحق ہے جو کئی آیات قرآنی واحادیث نبوی سے ثابت ہے۔ جو لوگ عذاب قبر کا انکار کرتے اور اپنے آپ کو مسلمان کہلاتے ہیں۔ وہ قرآن وحدیث سے بے بہرہ اور گمراہ ہیں۔ ہداہم اللہ۔ آمین