‌صحيح البخاري - حدیث 1351

كِتَابُ الجَنَائِزِ بَابٌ: هَلْ يُخْرَجُ المَيِّتُ مِنَ القَبْرِ وَاللَّحْدِ لِعِلَّةٍ صحيح حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ عَنْ عَطَاءٍ عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لَمَّا حَضَرَ أُحُدٌ دَعَانِي أَبِي مِنْ اللَّيْلِ فَقَالَ مَا أُرَانِي إِلَّا مَقْتُولًا فِي أَوَّلِ مَنْ يُقْتَلُ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِنِّي لَا أَتْرُكُ بَعْدِي أَعَزَّ عَلَيَّ مِنْكَ غَيْرَ نَفْسِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّ عَلَيَّ دَيْنًا فَاقْضِ وَاسْتَوْصِ بِأَخَوَاتِكَ خَيْرًا فَأَصْبَحْنَا فَكَانَ أَوَّلَ قَتِيلٍ وَدُفِنَ مَعَهُ آخَرُ فِي قَبْرٍ ثُمَّ لَمْ تَطِبْ نَفْسِي أَنْ أَتْرُكَهُ مَعَ الْآخَرِ فَاسْتَخْرَجْتُهُ بَعْدَ سِتَّةِ أَشْهُرٍ فَإِذَا هُوَ كَيَوْمِ وَضَعْتُهُ هُنَيَّةً غَيْرَ أُذُنِهِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 1351

کتاب: جنازے کے احکام و مسائل باب: میت کو کسی خاص وجہ سے قبر یا لحد ہم سے مسدد نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم کو بشربن مفضل نے خبر دی‘ کہا کہ ہم سے حسین معلم نے بیان کیا‘ ان سے عطاءبن ابی رباح نے‘ ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب جنگ احد کا وقت قریب آگیا تو مجھے میرے باپ عبداللہ نے رات کو بلاکر کہا کہ مجھے ایسا دکھائی دیتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سب سے پہلا مقتول میں ہی ہوں گا اور دیکھو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا دوسرا کوئی مجھے ( اپنے عزیزوں اور وارثوں میں ) تم سے زیادہ عزیز نہیں ہے‘ میں مقروض ہوں اس لیے تم میرا قرض ادا کردینا اور اپنی ( نو ) بہنوں سے اچھا سلوک کرنا۔ چنانچہ جب صبح ہوئی تو سب سے پہلے میرے والد ہی شہید ہوئے۔ قبر میں آپ کے ساتھ میں نے ایک دوسرے شخص کو بھی دفن کیا تھا۔ پر میرا دل نہیں مانا کہ انہیں دوسرے صاحب کے ساتھ یوں ہی قبر میں رہنے دوں۔ چنانچہ چھ مہینے کے بعد میں نے ان کی لاش کو قبر سے نکالا دیکھا تو صرف کان تھوڑا سا گلنے کے سوا باقی سارا جسم اسی طرح تھا جیسے دفن کیا گیا تھا۔
تشریح : جابر رضی اللہ عنہ کے والد عبداللہ رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے جاں نثار تھے اور ان کے دل میں جنگ کا جوش بھرا ہوا تھا۔ انہوں نے یہ ٹھان لی کہ میں کافروں کو ماروں گا اور مروں گا۔ کہتے ہیں کہ انہوں نے ایک خواب بھی دیکھا تھا کہ مبشربن عبداللہ جو جنگ بدر میں شہید ہوئے تھے وہ ان کو کہہ رہے تھے کہ تم ہمارے پاس ان ہی دنوں میں آنا چاہتے ہو۔ انہوں نے یہ خواب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہاری قسمت میں شہادت لکھی ہوئی ہے۔ چنانچہ یہ خواب سچا ثابت ہوا۔ اس حدیث سے ایک مومن کی شان بھی معلوم ہوئی کہ اس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ عزیز ہوں۔ جابر رضی اللہ عنہ کے والد عبداللہ رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے جاں نثار تھے اور ان کے دل میں جنگ کا جوش بھرا ہوا تھا۔ انہوں نے یہ ٹھان لی کہ میں کافروں کو ماروں گا اور مروں گا۔ کہتے ہیں کہ انہوں نے ایک خواب بھی دیکھا تھا کہ مبشربن عبداللہ جو جنگ بدر میں شہید ہوئے تھے وہ ان کو کہہ رہے تھے کہ تم ہمارے پاس ان ہی دنوں میں آنا چاہتے ہو۔ انہوں نے یہ خواب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہاری قسمت میں شہادت لکھی ہوئی ہے۔ چنانچہ یہ خواب سچا ثابت ہوا۔ اس حدیث سے ایک مومن کی شان بھی معلوم ہوئی کہ اس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ عزیز ہوں۔