‌صحيح البخاري - حدیث 1344

كِتَابُ الجَنَائِزِ بَابُ الصَّلاَةِ عَلَى الشَّهِيدِ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ عَنْ أَبِي الْخَيْرِ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمًا فَصَلَّى عَلَى أَهْلِ أُحُدٍ صَلَاتَهُ عَلَى الْمَيِّتِ ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى الْمِنْبَرِ فَقَالَ إِنِّي فَرَطٌ لَكُمْ وَأَنَا شَهِيدٌ عَلَيْكُمْ وَإِنِّي وَاللَّهِ لَأَنْظُرُ إِلَى حَوْضِي الْآنَ وَإِنِّي أُعْطِيتُ مَفَاتِيحَ خَزَائِنِ الْأَرْضِ أَوْ مَفَاتِيحَ الْأَرْضِ وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تُشْرِكُوا بَعْدِي وَلَكِنْ أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تَنَافَسُوا فِيهَا

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 1344

کتاب: جنازے کے احکام و مسائل باب: شہید کی نماز جنازہ پڑھیں یا نہیں؟ ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا‘ ان سے یزیدبن ابی حبیب نے بیان کیا‘ ان سے ابوالخیر یزیدبن عبداللہ نے‘ ان سے عقبہ بن عامرنے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن باہر تشریف لائے اور احد کے شہیدوں پر اس طرح نماز پڑھی جیسے میت پر پڑھی جاتی ہے۔ پھر منبر پر تشریف لائے اور فرمایا۔ دیکھو میں تم سے پہلے جاکر تمہارے لیے میر سامان بنوں گا اور میں تم پر گواہ رہوں گا۔ اور قسم اللہ کی میں اس وقت اپنے حوض کو دیکھ رہا ہوں اور مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی ہیں یا ( یہ فرمایا کہ ) مجھے زمین کی کنجیاں دی گئی ہیں اور قسم خدا کی مجھے اس کا ڈر نہیں کہ میرے بعد تم شرک کروگے بلکہ اس کا ڈر ہے کہ تم لوگ دنیا حاصل کرنے میں رغبت کرو گے۔ ( نتیجہ یہ کہ آخرت سے غافل ہو جاؤ گے )
تشریح : شہید فی سبیل اللہ جو میدان جنگ میں مارا جائے اس پر نماز جنازہ پڑھنے نہ پڑھنے کے بارے میں اختلاف ہے۔ اسی باب کے ذیل میں ہر دو احادیث میں یہ اختلاف موجود ہے۔ ان میں تطبیق یہ ہے کہ دوسری حدیث جس میں شہدائے احد پر نماز کا ذکر ہے اس سے مراد صرف دعا اور استغفار ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں کانہ صلی اللہ علیہ وسلم دعالہم واستغفرلہم حین قرب اجلہ بعد ثمان سنین کالمودع للاحیاءوالاموات ( تحفۃ الاحوذی ) یعنی اس حدیث میں جو ذکر ہے یہ معرکہ احد کے آٹھ سال بعد کا ہے۔ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے آخری وقت میں شہدائے احد سے بھی رخصت ہونے کے لیے وہاں گئے اور ان کے لیے دعائے مغفرت فرمائی۔ طویل بحث کے بعد المحدث الکبیر مولانا عبدالرحمن مبارک پوری مرحوم فرماتے ہیں۔ قلت الظاہر عندی ان الصلوٰۃ علی الشہید لیست بواجبۃ فیجوز ان یصلی علیہا ویجوز ترکہا واللہ اعلم یعنی میرے نزدیک شہید پر نماز جنازہ پڑھنا اور نہ پڑھنا ہر دو امور جائز ہیں واللہ اعلم۔ شہید فی سبیل اللہ جو میدان جنگ میں مارا جائے اس پر نماز جنازہ پڑھنے نہ پڑھنے کے بارے میں اختلاف ہے۔ اسی باب کے ذیل میں ہر دو احادیث میں یہ اختلاف موجود ہے۔ ان میں تطبیق یہ ہے کہ دوسری حدیث جس میں شہدائے احد پر نماز کا ذکر ہے اس سے مراد صرف دعا اور استغفار ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں کانہ صلی اللہ علیہ وسلم دعالہم واستغفرلہم حین قرب اجلہ بعد ثمان سنین کالمودع للاحیاءوالاموات ( تحفۃ الاحوذی ) یعنی اس حدیث میں جو ذکر ہے یہ معرکہ احد کے آٹھ سال بعد کا ہے۔ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے آخری وقت میں شہدائے احد سے بھی رخصت ہونے کے لیے وہاں گئے اور ان کے لیے دعائے مغفرت فرمائی۔ طویل بحث کے بعد المحدث الکبیر مولانا عبدالرحمن مبارک پوری مرحوم فرماتے ہیں۔ قلت الظاہر عندی ان الصلوٰۃ علی الشہید لیست بواجبۃ فیجوز ان یصلی علیہا ویجوز ترکہا واللہ اعلم یعنی میرے نزدیک شہید پر نماز جنازہ پڑھنا اور نہ پڑھنا ہر دو امور جائز ہیں واللہ اعلم۔