‌صحيح البخاري - حدیث 1341

كِتَابُ الجَنَائِزِ بَابُ بِنَاءِ المَسْجِدِ عَلَى القَبْرِ صحيح حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ قَالَ حَدَّثَنِي مَالِكٌ عَنْ هِشَامٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ لَمَّا اشْتَكَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرَتْ بَعْضُ نِسَائِهِ كَنِيسَةً رَأَيْنَهَا بِأَرْضِ الْحَبَشَةِ يُقَالُ لَهَا مَارِيَةُ وَكَانَتْ أُمُّ سَلَمَةَ وَأُمُّ حَبِيبَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَتَتَا أَرْضَ الْحَبَشَةِ فَذَكَرَتَا مِنْ حُسْنِهَا وَتَصَاوِيرَ فِيهَا فَرَفَعَ رَأْسَهُ فَقَالَ أُولَئِكِ إِذَا مَاتَ مِنْهُمْ الرَّجُلُ الصَّالِحُ بَنَوْا عَلَى قَبْرِهِ مَسْجِدًا ثُمَّ صَوَّرُوا فِيهِ تِلْكَ الصُّورَةَ أُولَئِكِ شِرَارُ الْخَلْقِ عِنْدَ اللَّهِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 1341

کتاب: جنازے کے احکام و مسائل باب: قبروں پر مسجد تعمیر کرنا کیسا ہے؟ ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا‘ کہا مجھ سے امام مالک نے بیان کیا‘ ان سے ہشام بن عروہ نے‘ ان سے ان کے باپ نے اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیمار پڑے تو آپ کی بعض بیویوں ( ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور ام حبیبہ رضی اللہ عنہا ) نے ایک گرجے کا ذکر کیا جسے انہوں نے حبشہ میں دیکھا تھا جس کا نام ماریہ تھا۔ ام سلمہ اور ام حبیبہ رضی اللہ عنہا دونوں حبش کے ملک میں گئی تھیں۔ انہوں نے اس کی خوبصورتی اور اس میں رکھی ہوئی تصاویر کا بھی ذکر کیا۔ اس پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سرمبارک اٹھاکر فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں کہ جب ان میں کوئی صالح شخص مرجاتا تو اس کی قبر پر مسجد تعمیر کردیتے۔ پھر اس کی مورت اس میں رکھتے۔ اللہ کے نزدیک یہ لوگ ساری مخلوق میں برے ہیں۔
تشریح : امام قسطلانی فرماتے ہیں: قال القرطبی انما صوروا اوائلہم الصور لیتانسوا بہا ویتذکروا افعالہم الصالحۃ فیجتہدون کاجتہادہم ویعبدون اللہ عند قبورہم ثم خلفہم قوم جہلوا مرادہم ووسوس لہم الشیطان ان اسلافکم کانو یعبدون ہذہ الصورو یعظمونہا فحذر النبی صلی اللہ علیہ وسلم عن مثل ذلک سداللذریعۃ المودیۃ الی ذلک بقولہ اولئک شرارالخلق عنداللہ وموضع الترجمۃ بنوا علی قبرہ مسجدا وہو مول علی مذمۃ من اتخذ القبر مسجدا ومقتضاہ التحریم لا سیما وقد ثبت اللعن علیہ یعنی قرطبی نے کہا کہ بنواسرائیل نے شروع میں اپنے بزرگوں کے بت بنائے تاکہ ان سے انس حاصل کریں اور ان کے نیک کاموں کو یاد کر کرکے خود بھی ایسے ہی نیک کام کریں اور ان کی قبروں کے پاس بیٹھ کر عبادت الٰہی کریں۔ پیچھے اور بھی زیادہ جاہل لوگ پیدا ہوئے۔ جنہوں نے اس مقصد کو فراموش کردیا اور ان کو شیطان نے وسوسوں میں ڈالا کہ تمہارے اسلاف ان ہی مورتوں کو پوجتے تھے اور انہی کی تعظیم کرتے تھے۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی شرک کا سدباب کرنے کے لیے سختی کے ساتھ ڈرایا اور فرمایا کہ اللہ کے نزدیک یہی لوگ بدترین مخلوق ہیں۔ اور ترجمۃ الباب لفظ حدیث بنو اعلی قبرہ مسجدا سے ثابت ہوتا ہے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کی مذمت کی جو قبر کو مسجد بنالے۔ اس سے اس فعل کی حرمت بھی ثابت ہوتی ہے اور ایسا کرنے پر لعنت بھی دارد ہوئی ہے۔ حضرت نوع علیہ السلام کی قوم نے بھی شروع شروع میں اسی طرح اپنے بزرگوں کے بت بنائے‘ بعد میں پھر ان بتوں ہی کو خدا کا درجہ دے دیاگیا۔ عموماً جملہ بت پرست اقوام کا یہی حال ہے۔ جب کہ وہ خود کہتے بھی ہیں کہ مَانَعبُدُہُم اِلاَّ لِیُقَرِّبُونَا اِلَی اللّٰہِ رُلفٰی ( الزمر:3 ) یعنی ہم ان بتوں کو محض اس لیے پوجتے ہیں کہ یہ ہم کو اللہ سے قریب کردیں۔ باقی یہ معبود نہیں ہیں یہ تو ہمارے لیے وسیلہ ہیں۔ اللہ پاک نے مشرکین کے اس خیال باطل کی تردید میں قرآن کریم کا بیشتر حصہ نازل فرمایا۔ صد افسوس! کہ کسی نہ کسی شکل میں بہت سے مدعیان اسلام میں بھی اس قسم کا شرک داخل ہوگیا ہے۔ حالانکہ شرک اکبر ہویا اصغر اس کے مرتکب پر جنت ہمیشہ کے لیے حرام ہے۔ مگر اس صورت میں کہ وہ مرنے سے پہلے اس سے تائب ہوکر خالص خدا پرست بن جائے۔ اللہ پاک ہر قسم کے شرک سے بچائے۔ آمین امام قسطلانی فرماتے ہیں: قال القرطبی انما صوروا اوائلہم الصور لیتانسوا بہا ویتذکروا افعالہم الصالحۃ فیجتہدون کاجتہادہم ویعبدون اللہ عند قبورہم ثم خلفہم قوم جہلوا مرادہم ووسوس لہم الشیطان ان اسلافکم کانو یعبدون ہذہ الصورو یعظمونہا فحذر النبی صلی اللہ علیہ وسلم عن مثل ذلک سداللذریعۃ المودیۃ الی ذلک بقولہ اولئک شرارالخلق عنداللہ وموضع الترجمۃ بنوا علی قبرہ مسجدا وہو مول علی مذمۃ من اتخذ القبر مسجدا ومقتضاہ التحریم لا سیما وقد ثبت اللعن علیہ یعنی قرطبی نے کہا کہ بنواسرائیل نے شروع میں اپنے بزرگوں کے بت بنائے تاکہ ان سے انس حاصل کریں اور ان کے نیک کاموں کو یاد کر کرکے خود بھی ایسے ہی نیک کام کریں اور ان کی قبروں کے پاس بیٹھ کر عبادت الٰہی کریں۔ پیچھے اور بھی زیادہ جاہل لوگ پیدا ہوئے۔ جنہوں نے اس مقصد کو فراموش کردیا اور ان کو شیطان نے وسوسوں میں ڈالا کہ تمہارے اسلاف ان ہی مورتوں کو پوجتے تھے اور انہی کی تعظیم کرتے تھے۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی شرک کا سدباب کرنے کے لیے سختی کے ساتھ ڈرایا اور فرمایا کہ اللہ کے نزدیک یہی لوگ بدترین مخلوق ہیں۔ اور ترجمۃ الباب لفظ حدیث بنو اعلی قبرہ مسجدا سے ثابت ہوتا ہے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کی مذمت کی جو قبر کو مسجد بنالے۔ اس سے اس فعل کی حرمت بھی ثابت ہوتی ہے اور ایسا کرنے پر لعنت بھی دارد ہوئی ہے۔ حضرت نوع علیہ السلام کی قوم نے بھی شروع شروع میں اسی طرح اپنے بزرگوں کے بت بنائے‘ بعد میں پھر ان بتوں ہی کو خدا کا درجہ دے دیاگیا۔ عموماً جملہ بت پرست اقوام کا یہی حال ہے۔ جب کہ وہ خود کہتے بھی ہیں کہ مَانَعبُدُہُم اِلاَّ لِیُقَرِّبُونَا اِلَی اللّٰہِ رُلفٰی ( الزمر:3 ) یعنی ہم ان بتوں کو محض اس لیے پوجتے ہیں کہ یہ ہم کو اللہ سے قریب کردیں۔ باقی یہ معبود نہیں ہیں یہ تو ہمارے لیے وسیلہ ہیں۔ اللہ پاک نے مشرکین کے اس خیال باطل کی تردید میں قرآن کریم کا بیشتر حصہ نازل فرمایا۔ صد افسوس! کہ کسی نہ کسی شکل میں بہت سے مدعیان اسلام میں بھی اس قسم کا شرک داخل ہوگیا ہے۔ حالانکہ شرک اکبر ہویا اصغر اس کے مرتکب پر جنت ہمیشہ کے لیے حرام ہے۔ مگر اس صورت میں کہ وہ مرنے سے پہلے اس سے تائب ہوکر خالص خدا پرست بن جائے۔ اللہ پاک ہر قسم کے شرک سے بچائے۔ آمین