‌صحيح البخاري - حدیث 134

كِتَابُ العِلْمِ بَابُ مَنْ أَجَابَ السَّائِلَ بِأَكْثَرَ مِمَّا سَأَلَهُ صحيح حَدَّثَنَا آدَمُ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ رَجُلًا سَأَلَهُ: مَا يَلْبَسُ المُحْرِمُ؟ فَقَالَ: «لاَ يَلْبَسُ القَمِيصَ، وَلاَ العِمَامَةَ، وَلاَ السَّرَاوِيلَ، وَلاَ البُرْنُسَ، وَلاَ ثَوْبًا مَسَّهُ الوَرْسُ أَوِ الزَّعْفَرَانُ، فَإِنْ لَمْ يَجِدِ النَّعْلَيْنِ فَلْيَلْبَسِ الخُفَّيْنِ، وَلْيَقْطَعْهُمَا حَتَّى يَكُونَا تَحْتَ الكَعْبَيْنِ»

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 134

کتاب: علم کے بیان میں باب: سائل کو اس کے سوال سے زیادہ جواب دینا ہم سے آدم نے بیان کیا، کہا ان کو ابن ابی ذئب نے نافع کے واسطے سے خبر دی، وہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور ( دوسری سند میں ) زہری سالم سے، کہا وہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ احرام باندھنے والے کو کیا پہننا چاہیے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہ قمیص پہنے نہ صافہ باندھے اور نہ پاجامہ اور نہ کوئی سرپوش اوڑھے اور نہ کوئی زعفران اور ورس سے رنگا ہوا کپڑا پہنے اور اگر جوتے نہ ملیں تو موزے پہن لے اور انھیں ( اس طرح ) کاٹ دے کہ ٹخنوں سے نیچے ہو جائیں۔
تشریح : تشریح : ورس ایک قسم کی خوشبودار گھاس ہوتی ہے۔حج کا احرام باندھنے کے بعد اس کا استعمال جائز نہیں۔ سائل نے سوال تومختصر سا کیاتھا، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انے تفصیل کے ساتھ اس کو جواب دیا، تاکہ جواب نامکمل نہ رہ جائے۔ اس سے معلوم ہوا کہ استاد کو مسائل کی تفصیل میں فیاضی سے کام لینا چاہئیے تاکہ طلباءکے لیے کوئی گوشہ تشنہ تکمیل نہ رہ جائے۔ الحمدللہ کہ آج عشرہ اول ربیع الثانی 1387ھ میں کتاب العلم کے ترجمہ وحواشی سے فراغت حاصل ہوئی، اس سلسلہ میں بوجہ کم علمی کے خادم سے جو لغزش ہوگئی ہو اللہ تعالیٰ اسے معاف فر مائے۔ ربنا لاعلم لنا الا ماعلمتنا انک انت العلیم الحکیم۔ رب اشرح لی صدری ویسرلی امری آمین یاارحم الراحمین۔ تشریح : ورس ایک قسم کی خوشبودار گھاس ہوتی ہے۔حج کا احرام باندھنے کے بعد اس کا استعمال جائز نہیں۔ سائل نے سوال تومختصر سا کیاتھا، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انے تفصیل کے ساتھ اس کو جواب دیا، تاکہ جواب نامکمل نہ رہ جائے۔ اس سے معلوم ہوا کہ استاد کو مسائل کی تفصیل میں فیاضی سے کام لینا چاہئیے تاکہ طلباءکے لیے کوئی گوشہ تشنہ تکمیل نہ رہ جائے۔ الحمدللہ کہ آج عشرہ اول ربیع الثانی 1387ھ میں کتاب العلم کے ترجمہ وحواشی سے فراغت حاصل ہوئی، اس سلسلہ میں بوجہ کم علمی کے خادم سے جو لغزش ہوگئی ہو اللہ تعالیٰ اسے معاف فر مائے۔ ربنا لاعلم لنا الا ماعلمتنا انک انت العلیم الحکیم۔ رب اشرح لی صدری ویسرلی امری آمین یاارحم الراحمین۔