‌صحيح البخاري - حدیث 1338

كِتَابُ الجَنَائِزِ بَابٌ: المَيِّتُ يَسْمَعُ خَفْقَ النِّعَالِ صحيح حَدَّثَنَا عَيَّاشٌ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى حَدَّثَنَا سَعِيدٌ قَالَ وَقَالَ لِي خَلِيفَةُ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ حَدَّثَنَا سَعِيدٌ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْعَبْدُ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ وَتُوُلِّيَ وَذَهَبَ أَصْحَابُهُ حَتَّى إِنَّهُ لَيَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِهِمْ أَتَاهُ مَلَكَانِ فَأَقْعَدَاهُ فَيَقُولَانِ لَهُ مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَقُولُ أَشْهَدُ أَنَّهُ عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ فَيُقَالُ انْظُرْ إِلَى مَقْعَدِكَ مِنْ النَّارِ أَبْدَلَكَ اللَّهُ بِهِ مَقْعَدًا مِنْ الْجَنَّةِ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَرَاهُمَا جَمِيعًا وَأَمَّا الْكَافِرُ أَوْ الْمُنَافِقُ فَيَقُولُ لَا أَدْرِي كُنْتُ أَقُولُ مَا يَقُولُ النَّاسُ فَيُقَالُ لَا دَرَيْتَ وَلَا تَلَيْتَ ثُمَّ يُضْرَبُ بِمِطْرَقَةٍ مِنْ حَدِيدٍ ضَرْبَةً بَيْنَ أُذُنَيْهِ فَيَصِيحُ صَيْحَةً يَسْمَعُهَا مَنْ يَلِيهِ إِلَّا الثَّقَلَيْنِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 1338

کتاب: جنازے کے احکام و مسائل باب: مردہ لوٹ کر جانے والوں کے جوتوں ہم سے عیاش بن ولید نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے عبدالاعلیٰ نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے سعید بن ابی عروبہ نے بیان کیا۔ ( دوسری سند ) امام بخاری نے کہا کہ مجھ سے خلیفہ بن خیاط نے بیان کیا‘ ان سے یزید بن زریع نے‘ ان سے سعید بن ابی عروبہ نے‘ ان سے قتادہ نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آدمی جب قبر میں رکھا جاتا ہے اور دفن کرکے اس کے لوگ باگ پیٹھ موڑ کر رخصت ہوتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہے۔ پھر دو فرشتے آتے ہیں اسے بٹھاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ اس شخص ( محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کے متعلق تمہارا کیا اعتقاد ہے؟ وہ جواب دیتا ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ اس جواب پر اس سے کہا جاتا ہے کہ یہ دیکھ جہنم کا اپنا ایک ٹھکانا لیکن اللہ تعالیٰ نے جنت میں تیرے لیے ایک مکان اس کے بدلے میں بنا دیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر اس بندہ مومن کو جنت اور جہنم دونوں دکھائی جاتی ہیں اور رہا کافریا منافق تو اس کا جواب یہ ہوتا ہے کہ مجھے معلوم نہیں‘ میں نے لوگوں کو ایک بات کہتے سنا تھا وہی میں بھی کہتا رہا۔ پھر اس سے کہا جاتا ہے کہ نہ تونے کچھ سمجھا اور نہ ( اچھے لوگوں کی ) پیروی کی۔ اس کے بعد اسے ایک لوہے کے ہتھوڑے سے بڑے زور سے مارا جاتا ہے اور وہ اتنے بھیانک طریقہ سے چیختا ہے کہ انسان اور جن کے سوا اردگرد کی تمام مخلوق سنتی ہے۔
تشریح : اس حدیث سے یہ نکلا کہ ہر شخص کے لیے دو دو ٹھکانے بنے ہیں‘ ایک جنت میں اور ایک دوزخ میں اور یہ قرآن شریف سے بھی ثابت ہے کہ کافروں کے ٹھکانے جو جنت میں ہیں ان کے دوزخ میں جانے کی وجہ سے ان ٹھکانوں کو ایماندار لے لیں گے۔ قبر میں تین باتوں کا سوال ہوتا ہے من ربک تیرا رب کون ہے؟ مومن جواب دیتاہے ربی اللہ میرا رب اللہ ہے پھر سوال ہوتا ہے ومادینک تیرا دین کیا تھا‘ مومن کہتا ہے دینی الاسلام میرا دین اسلام تھا۔ پھر پوچھا جاتا ہے کہ تیرا نبی کون ہے؟ وہ بولتا ہے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم میرے نبی رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ ان جوابات پر اس کے لیے جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور کافر اور منافق ہر سوال کے جواب میں یہی کہتا ہے کہ میں کچھ نہیں جانتا۔ جیسا لوگ کہتے رہتے تھے میں بھی کہہ دیا کرتا تھا۔ میرا کوئی دین مذہب نہ تھا۔ اس پر اس کے لیے دوزخ کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں۔ لم لادریت ولم لا تلیت کے ذیل مولانا وحیدالزماں مرحوم فرماتے ہیں۔ یعنی نہ مجتہد ہوا نہ مقلد اگر کوئی اعتراض کرے کہ مقلد تو ہوا کیونکہ اس نے پہلے کہا کہ لوگ جیسا کہتے تھے میں نے بھی ایسا ہی کیا۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تقلید کچھ کام کی نہیں کہ سنے سنائے پر ہر شخص عمل کرنے لگا۔ بلکہ تقلید کے لیے بھی غور لازم ہے کہ جس شخص کے ہم مقلد بنتے ہیں آیا وہ لائق اور فاضل اور سمجھ دار تھا یا نہیں اور دین کا علم اس کو تھا یا نہیں۔ سب باتیں بخوبی تحقیق کرنی ضروری ہیں۔ اس حدیث سے یہ نکلا کہ ہر شخص کے لیے دو دو ٹھکانے بنے ہیں‘ ایک جنت میں اور ایک دوزخ میں اور یہ قرآن شریف سے بھی ثابت ہے کہ کافروں کے ٹھکانے جو جنت میں ہیں ان کے دوزخ میں جانے کی وجہ سے ان ٹھکانوں کو ایماندار لے لیں گے۔ قبر میں تین باتوں کا سوال ہوتا ہے من ربک تیرا رب کون ہے؟ مومن جواب دیتاہے ربی اللہ میرا رب اللہ ہے پھر سوال ہوتا ہے ومادینک تیرا دین کیا تھا‘ مومن کہتا ہے دینی الاسلام میرا دین اسلام تھا۔ پھر پوچھا جاتا ہے کہ تیرا نبی کون ہے؟ وہ بولتا ہے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم میرے نبی رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ ان جوابات پر اس کے لیے جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور کافر اور منافق ہر سوال کے جواب میں یہی کہتا ہے کہ میں کچھ نہیں جانتا۔ جیسا لوگ کہتے رہتے تھے میں بھی کہہ دیا کرتا تھا۔ میرا کوئی دین مذہب نہ تھا۔ اس پر اس کے لیے دوزخ کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں۔ لم لادریت ولم لا تلیت کے ذیل مولانا وحیدالزماں مرحوم فرماتے ہیں۔ یعنی نہ مجتہد ہوا نہ مقلد اگر کوئی اعتراض کرے کہ مقلد تو ہوا کیونکہ اس نے پہلے کہا کہ لوگ جیسا کہتے تھے میں نے بھی ایسا ہی کیا۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تقلید کچھ کام کی نہیں کہ سنے سنائے پر ہر شخص عمل کرنے لگا۔ بلکہ تقلید کے لیے بھی غور لازم ہے کہ جس شخص کے ہم مقلد بنتے ہیں آیا وہ لائق اور فاضل اور سمجھ دار تھا یا نہیں اور دین کا علم اس کو تھا یا نہیں۔ سب باتیں بخوبی تحقیق کرنی ضروری ہیں۔