‌صحيح البخاري - حدیث 1332

كِتَابُ الجَنَائِزِ بَابٌ: أَيْنَ يَقُومُ مِنَ المَرْأَةِ وَالرَّجُلِ صحيح حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ مَيْسَرَةَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ عَنْ ابْنِ بُرَيْدَةَ حَدَّثَنَا سَمُرَةُ بْنُ جُنْدَبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ صَلَّيْتُ وَرَاءَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى امْرَأَةٍ مَاتَتْ فِي نِفَاسِهَا فَقَامَ عَلَيْهَا وَسَطَهَا

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 1332

کتاب: جنازے کے احکام و مسائل باب: عورت اور مرد کی نماز جنازہ ہم سے عمران بن میسرہ نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا‘ ان سے حسین نے بیان کیا اور ان سے ابن بریدہ نے کہ ہم سے سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ایک عورت کی نماز جنازہ پڑھی تھی جس کا زچگی کی حالت میں انتقال ہوگیا تھا۔ آپ اس کے بیچ میں کھڑے ہوئے۔
تشریح : مسنون یہی ہے کہ امام عورت کی کمر کے مقابل کھڑا ہو اور مرد کے سرکے مقابل۔ سنن ابوداؤد میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور بتلایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ مگر امام بخاری رحمہ اللہ نے غالباً ابوداؤد والی روایت کو ضعیف سمجھا اور ترجیح اس کو دی کہ امام مرد اور عورت دونوں کی کمر کے مقابل کھڑا ہو۔ اگرچہ اس حدیث میں صرف عورت کے وسط میں کھڑا ہونے کا ذکر ہے اور یہی مسنون بھی ہے۔ مگر حضرت امام رحمہ اللہ نے باب میں عورت اور مرد دونوں کو یکساں قرار دیا ہے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں وقد ذہب بعض اہل العلم الی ہذا ای الی ان الامام یقوم حذاءراس الرجل وحذاءعجیزۃ المراۃ وہو قول احمد و اسحاق وہو قول الشافعی وہو الحق وہو روایۃ عن ابی حنیفۃ قال فی الہدایۃ وعن ابی حنیفۃ انہ یقوم من الرجل بحذاءراسہ ومن المراۃ بحذاءوسطہا لان انسا فعل کذالک وقال ہوالسنۃ ( تحفۃ الاحوذی ) یعنی بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں کہ جنازہ کی نماز میں امام مرد میت کے سر کے پاس کھڑا ہو اور عورت کے بدن کے وسط میں کمر کے پاس۔ امام احمد رحمہ اللہ اور اسحق رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ کا یہی قول ہے اور یہی حق ہے اور ہدایہ میں حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ امام مرد میت کے سرکے پاس اور عورت کے وسط میں کھڑا ہو اس لیے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے ایسا ہی کیا تھا اور فرمایا تھا کہ سنت یہی ہے۔ مسنون یہی ہے کہ امام عورت کی کمر کے مقابل کھڑا ہو اور مرد کے سرکے مقابل۔ سنن ابوداؤد میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور بتلایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ مگر امام بخاری رحمہ اللہ نے غالباً ابوداؤد والی روایت کو ضعیف سمجھا اور ترجیح اس کو دی کہ امام مرد اور عورت دونوں کی کمر کے مقابل کھڑا ہو۔ اگرچہ اس حدیث میں صرف عورت کے وسط میں کھڑا ہونے کا ذکر ہے اور یہی مسنون بھی ہے۔ مگر حضرت امام رحمہ اللہ نے باب میں عورت اور مرد دونوں کو یکساں قرار دیا ہے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں وقد ذہب بعض اہل العلم الی ہذا ای الی ان الامام یقوم حذاءراس الرجل وحذاءعجیزۃ المراۃ وہو قول احمد و اسحاق وہو قول الشافعی وہو الحق وہو روایۃ عن ابی حنیفۃ قال فی الہدایۃ وعن ابی حنیفۃ انہ یقوم من الرجل بحذاءراسہ ومن المراۃ بحذاءوسطہا لان انسا فعل کذالک وقال ہوالسنۃ ( تحفۃ الاحوذی ) یعنی بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں کہ جنازہ کی نماز میں امام مرد میت کے سر کے پاس کھڑا ہو اور عورت کے بدن کے وسط میں کمر کے پاس۔ امام احمد رحمہ اللہ اور اسحق رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ کا یہی قول ہے اور یہی حق ہے اور ہدایہ میں حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ امام مرد میت کے سرکے پاس اور عورت کے وسط میں کھڑا ہو اس لیے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے ایسا ہی کیا تھا اور فرمایا تھا کہ سنت یہی ہے۔