‌صحيح البخاري - حدیث 1330

كِتَابُ الجَنَائِزِ بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنَ اتِّخَاذِ المَسَاجِدِ عَلَى القُبُورِ صحيح حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى عَنْ شَيْبَانَ عَنْ هِلَالٍ هُوَ الْوَزَّانُ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ لَعَنَ اللَّهُ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسْجِدًا قَالَتْ وَلَوْلَا ذَلِكَ لَأَبْرَزُوا قَبْرَهُ غَيْرَ أَنِّي أَخْشَى أَنْ يُتَّخَذَ مَسْجِدًا

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 1330

کتاب: جنازے کے احکام و مسائل باب: قبر پر مسجد بنانا مکروہ ہے ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا‘ ان سے شیبان نے‘ ان سے ہلال وزان نے‘ ان سے عروہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرض وفات میں فرمایا کہ یہود اور نصاریٰ پر اللہ کی لعنت ہوکہ انہوں نے اپنے انبیاءکی قبروں کو مساجد بنالیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عہنا نے کہا کہ اگر ایسا ڈر نہ ہوتا تو آپ کی قبر کھلی رہتی ( اور حجرہ میں نہ ہوتی ) کیونکہ مجھے ڈر اس کا ہے کہ کہیں آپ کی قبر بھی مسجد نہ بنالی جائے۔
تشریح : یعنی خود قبروں کو پوجنے لگے یا قبروں پر مسجد اور گرجا بناکر وہاں خدا کی عبادت کرنے لگے۔ توباب کی مطابقت حاصل ہوگئی۔ امام ابن قیم نے کہا جو لوگ قبروں پر وقت معین میں جمع ہوتے ہیں وہ بھی گویا قبر کو مسجد بناتے ہیں۔ دوسری حدیث میں ہے میری قبر کو عید نہ کرلینا یعنی عید کی طرح وہاں میلہ اور مجمع نہ کرنا۔ جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ بھی ان یہودیوں اور نصرانیوں کے پیرو ہیں جن پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی۔ افسوس! ہمارے زمانے میں گور پرستی ایسی شائع ہورہی ہے کہ یہ نام کے مسلمان خدا اور رسول سے ذرا بھی نہیں شرماتے‘ قبروں کو اس قدر پختہ شاندار بناتے ہیں کہ ان کی عمارات کو دیکھ کر مساجد کا شبہ ہوتا ہے۔ حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی کے ساتھ قبروں پر ایسی تعمیرات کے لیے منع فرمایا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابوہیاج اسدی کو کہا تھا ابعثک علی ما بعثنی علیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا تدع تمثالا الا طمستہ ولا قبرا مشرفا الاسویتہ رواہ الجماعۃ الا البخاری وابن ماجہ یعنی کیا میں تم کو اس خدمت کے لیے نہ بھیجوں جس کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا تھا۔ وہ یہ کہ کوئی مورت ایسی نہ چھوڑ جسے تو مٹا نہ دے اور کوئی اونچی قبر نہ رہے جسے تو برابر نہ کردے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قبروں کا حد سے زیادہ اونچا اور بلند کرنا بھی شارع کو ناپسند ہے۔ علامہ شوکانی فرماتے ہیں۔ فیہ ان السنۃ ان القبر لا یرفع رفعا کثیرا من غیر فرق بین من کان فاضلا ومن کان غیر فاضل والظاہر ان رفع القبور زیادۃ علی القدر الماذون حرام یعنی سنت یہی ہے کہ قبر کو حد شرعی سے زیادہ بلندنہ بنایا جائے خواہ وہ کسی فاضل عالم صوفی کی ہویا کسی غیر فاضل کی اور ظاہر ہے کہ شرعی اجازت سے زیادہ قبروں کو اونچا کرنا حرام ہے۔ آگے علامہ فرماتے ہیں: ومن رفع القبور الداخل تحت الحدیث دخولا اولیا القبیب والمشاہد المعمورۃ علی القبور وایضا ہو من اتخاذالقبور مساجد وقد لعن النبی صلی اللہ علیہ وسلم فاعل ذلک کما سیاتی وکم قدسری عن تشیدا بنیۃ القبور وتحسینہا من مفاسد یبکی لہا الاسلام منہا اعتقاد الجہلۃ لہا کا عتقاد الکفار للاصنام وعظم ذلک فظنوا انہا قادرۃ علی جلب المنافع ودفع الضرر فجعلوہا مقصد الطلب قضاءالحوائج وملجاءلنجاح المطالب وسالوا منہا مایسالہ العباد من ربہم وشدوا الیہا الرحال وتمسحوا بہا واستغاثوا وبالجملۃ انہم لم یدعوا شیئا مما کانت الجاہلیۃ تفعلہ بالاصنام الا فعلوہ فانا للہ وانا الیہ راجعون ومع ہذا المنکر الشنیع الکفر الفظیع لا نجد من یغضب للہ ویغار حمیۃ للدین الحنیف لا عالما ولا متعلما ولا امیرا ولا وزیرا ولا ملکا وتوارد الینا من الاخبار مالا یشک معہ ان کثیرا من ہولاءالمقبورین او اکثرہم اذا توجہت علیہ یمین من جہۃ خصمہ حلف باللہ فاجرا واذ قیل لہ بعد ذلک احلف بشیخک ومعتقدک الولی الفلانی تلعثم وتلکاءوابی واعترف بالحق وہذا من ابین الادلۃ الدالۃ علی ان شرکہم قد بلغ فوق شرک من قال انہ تعالیٰ ثانی اثنین اوثالث ثلاثۃ فیا علماءالدین ویاملوک المسلمین ای رزءللاسلام اشد من الکفروای بلاءلہذا الدین اضر علیہ من عبادۃ غیر اللہ وای مصیبۃ یصاب بہا المسلمون تعدل ہذہ المصیبۃ وای منکر یجب انکارہ ان لم یکن انکار ہذا الشرک البین واجبا۔ لقد اسمعت لو نادیت حیا ولکن لا حیاۃ لمن تنادی ولو نارا نفخت بہا اضاعت ولکن انت تنفخ فی الرماد ( نیل الاوطار‘ ج:4ص: 90 ) یعنی بزرگوں کی قبروں پر بنائی ہوئی عمارات، قبے اور زیارت گاہیں یہ سب اس حدیث کے تحت داخل ہونے کی وجہ سے قطعاً ناجائز ہیں۔ یہی قبروں کو مساجد بنانا ہے جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے اور ان قبور کے پختہ بنانے اور ان پر عمارات کو مزین کرنے سے اس قدر مفاسد پیدا ہورہے ہیں کہ آج ان پر اسلام رو رہا ہے۔ ان میں سے مثلاً یہ کہ ایسے مزاروں کے بارے میں جاہل لوگ وہی اعتقادات رکھتے ہیں جو کفار بتوں کے بارے میں رکھتے ہیں بلکہ ان سے بھی بڑھ کر۔ ایسے جاہل ان قبور والوں کو نفع دینے والے اور نقصان دور کرنے والے تصور کرتے ہیں۔ اس لیے ان سے حاجات طلب کرتے ہیں۔ اپنی مرادیں ان کے سامنے رکھتے ہیں اور ان سے ایسے ہی دعائیں کرتے ہیں جیسے بندگان خدا کو خدا سے دعائیں کرنی چاہئیں۔ ان مزرات کی طرف کجاوے باندھ باندھ کر سفر کرتے ہیں اور وہاں جاکر ان قبروں کو مسح کرتے ہیں اور ان سے فریاد رسی چاہتے ہیں۔ مختصر یہ کہ جاہلیت میں جو کچھ بتوں کے ساتھ کیا جاتا تھا وہ سب کچھ ان قبروں کے ساتھ ہورہا ہے۔ انا للہ واناالیہ راجعون۔ اور اس کھلے ہوئے بدترین کفر ہونے کے باوجود ہم کسی بھی اللہ کے بندے کو نہیں پاتے جو اللہ کے لیے اس پر غصہ کرے اور دین حنیف کی کچھ غیرت اس کو آئے۔ عالم ہوں یا متعلم‘ امیرہوں یا وزیر یا بادشاہ‘ اس بارے میں سب خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ یہاں تک کہ سنا گیا ہے کہ یہ قبرپرست دشمن کے سامنے اللہ کی جھوٹی قسم کھاجاتے ہیں۔ مگر اپنے پیروں مشائخ کی جھوٹی قسموں کے وقت ان کی زبانیں لڑکھڑانے لگ جاتی ہیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ ان کا شرک ان لوگوں سے بھی آگے بڑھا ہوا ہے جو وہ خدا یا تین خدا مانتے ہیں۔ پس اے دین کے عالمو! اور مسلمانوں کے بادشاہو! اسلام کے لیے ایسے کفر سے بڑھ کر اور مصیبت کیا ہوگی اور غیر اللہ کی پرستش سے بڑھ کر دین اسلام کے لیے اور نقصان کی چیز کیا ہوگی اور مسلمان اس سے بھی بڑھ کر اور کس مصیبت کا شکار ہوں گے اور اگر اس کھلے ہوئے شرک کے خلاف ہی آواز انکار بلند نہ کی جاسکی تو اور کونسا گناہ ہوگا جس کے لیے زبانیں کھل سکیں گی۔ کسی شاعر نے سچ کہا ہے۔ “اگر تو زندوں کو پکارتا تو سنا سکتا تھا۔ مگر جن ( مردوں ) کو تو پکار رہا ہے وہ تو زندگی سے قطعاً محروم ہیں۔ اگر تم آگ میں پھونک مارتے تو وہ روشن ہوتی لیکن تم راکھ میں پھونک مار رہے ہو جو کبھی بھی روشن نہیں ہوسکتی۔” خلاصہ یہ کہ ایسی قبور اور ایسے مزارات اور ان پر یہ عرس‘ قوالیاں‘ میلے ٹھیلے‘ گانے بجانے قطعاً حرام اور شرک اور کفر ہیں۔ اللہ ہر مسلمان کو شرک جلی اور خفی سے بچائے۔ آمین حدیث علی رضی اللہ عنہ کے ذیل میں حجتہ الہند حضرت شاہ ولی اللہ مرحوم فرماتے ہیں: ونہی ان یجصص القبر وان یبنی علیہ وان یقعد علیہ وقال لا تصلوا الیہا لان ذلک ذریعۃ ان یتخذہا الناس معبودا وان یفر طوا فی تعظمہا بمالیس بحق فیحر فوا دینہم کما فعل اہل الکتاب وہو قولہ صلی اللہ علیہ وسلم لعن اللہ الیھود والنصاریٰ اتخذوا قبور انبیائہم مساجد الخ ( حجۃ اللہ البالغۃ، ج: 2ص:126 کراتشی ) اور قبر کو پختہ کرنے اور اس پر عمارت بنانے اور اس پر بیٹھنے سے منع فرمایا اور یہ بھی فرمایا کہ قبروں کی طرف نماز نہ پڑھو کیونکہ یہ اس بات کا ذریعہ ہے کہ لوگ قبروں کی پرستش کرنے لگیں اور لوگ ان قبروں کی اتنی زیادہ تعظیم کرنے لگیں جس کی وہ مستحق نہیں ہیں۔ پس لوگ اپنے دین میں تحریف کرڈالیں جیسا کہ اہل کتاب نے کیا۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہود اور نصاریٰ پر خدا کی لعنت ہو۔ انہوں نے اپنے انبیاءکی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا۔ پس حق یہ ہے کہ توسط اختیار کرے۔ نہ تو مردہ کی اس قدر تعظیم کرے کہ وہ شرک ہوجائے اور نہ اس کی اہانت اور اس کے ساتھ عداوت کرے کہ مرنے کے بعد اب یہ سارے معاملات ختم کرکے مرنے والا اللہ کے حوالہ ہوچکا ہے۔ یعنی خود قبروں کو پوجنے لگے یا قبروں پر مسجد اور گرجا بناکر وہاں خدا کی عبادت کرنے لگے۔ توباب کی مطابقت حاصل ہوگئی۔ امام ابن قیم نے کہا جو لوگ قبروں پر وقت معین میں جمع ہوتے ہیں وہ بھی گویا قبر کو مسجد بناتے ہیں۔ دوسری حدیث میں ہے میری قبر کو عید نہ کرلینا یعنی عید کی طرح وہاں میلہ اور مجمع نہ کرنا۔ جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ بھی ان یہودیوں اور نصرانیوں کے پیرو ہیں جن پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی۔ افسوس! ہمارے زمانے میں گور پرستی ایسی شائع ہورہی ہے کہ یہ نام کے مسلمان خدا اور رسول سے ذرا بھی نہیں شرماتے‘ قبروں کو اس قدر پختہ شاندار بناتے ہیں کہ ان کی عمارات کو دیکھ کر مساجد کا شبہ ہوتا ہے۔ حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی کے ساتھ قبروں پر ایسی تعمیرات کے لیے منع فرمایا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابوہیاج اسدی کو کہا تھا ابعثک علی ما بعثنی علیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا تدع تمثالا الا طمستہ ولا قبرا مشرفا الاسویتہ رواہ الجماعۃ الا البخاری وابن ماجہ یعنی کیا میں تم کو اس خدمت کے لیے نہ بھیجوں جس کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا تھا۔ وہ یہ کہ کوئی مورت ایسی نہ چھوڑ جسے تو مٹا نہ دے اور کوئی اونچی قبر نہ رہے جسے تو برابر نہ کردے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قبروں کا حد سے زیادہ اونچا اور بلند کرنا بھی شارع کو ناپسند ہے۔ علامہ شوکانی فرماتے ہیں۔ فیہ ان السنۃ ان القبر لا یرفع رفعا کثیرا من غیر فرق بین من کان فاضلا ومن کان غیر فاضل والظاہر ان رفع القبور زیادۃ علی القدر الماذون حرام یعنی سنت یہی ہے کہ قبر کو حد شرعی سے زیادہ بلندنہ بنایا جائے خواہ وہ کسی فاضل عالم صوفی کی ہویا کسی غیر فاضل کی اور ظاہر ہے کہ شرعی اجازت سے زیادہ قبروں کو اونچا کرنا حرام ہے۔ آگے علامہ فرماتے ہیں: ومن رفع القبور الداخل تحت الحدیث دخولا اولیا القبیب والمشاہد المعمورۃ علی القبور وایضا ہو من اتخاذالقبور مساجد وقد لعن النبی صلی اللہ علیہ وسلم فاعل ذلک کما سیاتی وکم قدسری عن تشیدا بنیۃ القبور وتحسینہا من مفاسد یبکی لہا الاسلام منہا اعتقاد الجہلۃ لہا کا عتقاد الکفار للاصنام وعظم ذلک فظنوا انہا قادرۃ علی جلب المنافع ودفع الضرر فجعلوہا مقصد الطلب قضاءالحوائج وملجاءلنجاح المطالب وسالوا منہا مایسالہ العباد من ربہم وشدوا الیہا الرحال وتمسحوا بہا واستغاثوا وبالجملۃ انہم لم یدعوا شیئا مما کانت الجاہلیۃ تفعلہ بالاصنام الا فعلوہ فانا للہ وانا الیہ راجعون ومع ہذا المنکر الشنیع الکفر الفظیع لا نجد من یغضب للہ ویغار حمیۃ للدین الحنیف لا عالما ولا متعلما ولا امیرا ولا وزیرا ولا ملکا وتوارد الینا من الاخبار مالا یشک معہ ان کثیرا من ہولاءالمقبورین او اکثرہم اذا توجہت علیہ یمین من جہۃ خصمہ حلف باللہ فاجرا واذ قیل لہ بعد ذلک احلف بشیخک ومعتقدک الولی الفلانی تلعثم وتلکاءوابی واعترف بالحق وہذا من ابین الادلۃ الدالۃ علی ان شرکہم قد بلغ فوق شرک من قال انہ تعالیٰ ثانی اثنین اوثالث ثلاثۃ فیا علماءالدین ویاملوک المسلمین ای رزءللاسلام اشد من الکفروای بلاءلہذا الدین اضر علیہ من عبادۃ غیر اللہ وای مصیبۃ یصاب بہا المسلمون تعدل ہذہ المصیبۃ وای منکر یجب انکارہ ان لم یکن انکار ہذا الشرک البین واجبا۔ لقد اسمعت لو نادیت حیا ولکن لا حیاۃ لمن تنادی ولو نارا نفخت بہا اضاعت ولکن انت تنفخ فی الرماد ( نیل الاوطار‘ ج:4ص: 90 ) یعنی بزرگوں کی قبروں پر بنائی ہوئی عمارات، قبے اور زیارت گاہیں یہ سب اس حدیث کے تحت داخل ہونے کی وجہ سے قطعاً ناجائز ہیں۔ یہی قبروں کو مساجد بنانا ہے جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے اور ان قبور کے پختہ بنانے اور ان پر عمارات کو مزین کرنے سے اس قدر مفاسد پیدا ہورہے ہیں کہ آج ان پر اسلام رو رہا ہے۔ ان میں سے مثلاً یہ کہ ایسے مزاروں کے بارے میں جاہل لوگ وہی اعتقادات رکھتے ہیں جو کفار بتوں کے بارے میں رکھتے ہیں بلکہ ان سے بھی بڑھ کر۔ ایسے جاہل ان قبور والوں کو نفع دینے والے اور نقصان دور کرنے والے تصور کرتے ہیں۔ اس لیے ان سے حاجات طلب کرتے ہیں۔ اپنی مرادیں ان کے سامنے رکھتے ہیں اور ان سے ایسے ہی دعائیں کرتے ہیں جیسے بندگان خدا کو خدا سے دعائیں کرنی چاہئیں۔ ان مزرات کی طرف کجاوے باندھ باندھ کر سفر کرتے ہیں اور وہاں جاکر ان قبروں کو مسح کرتے ہیں اور ان سے فریاد رسی چاہتے ہیں۔ مختصر یہ کہ جاہلیت میں جو کچھ بتوں کے ساتھ کیا جاتا تھا وہ سب کچھ ان قبروں کے ساتھ ہورہا ہے۔ انا للہ واناالیہ راجعون۔ اور اس کھلے ہوئے بدترین کفر ہونے کے باوجود ہم کسی بھی اللہ کے بندے کو نہیں پاتے جو اللہ کے لیے اس پر غصہ کرے اور دین حنیف کی کچھ غیرت اس کو آئے۔ عالم ہوں یا متعلم‘ امیرہوں یا وزیر یا بادشاہ‘ اس بارے میں سب خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ یہاں تک کہ سنا گیا ہے کہ یہ قبرپرست دشمن کے سامنے اللہ کی جھوٹی قسم کھاجاتے ہیں۔ مگر اپنے پیروں مشائخ کی جھوٹی قسموں کے وقت ان کی زبانیں لڑکھڑانے لگ جاتی ہیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ ان کا شرک ان لوگوں سے بھی آگے بڑھا ہوا ہے جو وہ خدا یا تین خدا مانتے ہیں۔ پس اے دین کے عالمو! اور مسلمانوں کے بادشاہو! اسلام کے لیے ایسے کفر سے بڑھ کر اور مصیبت کیا ہوگی اور غیر اللہ کی پرستش سے بڑھ کر دین اسلام کے لیے اور نقصان کی چیز کیا ہوگی اور مسلمان اس سے بھی بڑھ کر اور کس مصیبت کا شکار ہوں گے اور اگر اس کھلے ہوئے شرک کے خلاف ہی آواز انکار بلند نہ کی جاسکی تو اور کونسا گناہ ہوگا جس کے لیے زبانیں کھل سکیں گی۔ کسی شاعر نے سچ کہا ہے۔ “اگر تو زندوں کو پکارتا تو سنا سکتا تھا۔ مگر جن ( مردوں ) کو تو پکار رہا ہے وہ تو زندگی سے قطعاً محروم ہیں۔ اگر تم آگ میں پھونک مارتے تو وہ روشن ہوتی لیکن تم راکھ میں پھونک مار رہے ہو جو کبھی بھی روشن نہیں ہوسکتی۔” خلاصہ یہ کہ ایسی قبور اور ایسے مزارات اور ان پر یہ عرس‘ قوالیاں‘ میلے ٹھیلے‘ گانے بجانے قطعاً حرام اور شرک اور کفر ہیں۔ اللہ ہر مسلمان کو شرک جلی اور خفی سے بچائے۔ آمین حدیث علی رضی اللہ عنہ کے ذیل میں حجتہ الہند حضرت شاہ ولی اللہ مرحوم فرماتے ہیں: ونہی ان یجصص القبر وان یبنی علیہ وان یقعد علیہ وقال لا تصلوا الیہا لان ذلک ذریعۃ ان یتخذہا الناس معبودا وان یفر طوا فی تعظمہا بمالیس بحق فیحر فوا دینہم کما فعل اہل الکتاب وہو قولہ صلی اللہ علیہ وسلم لعن اللہ الیھود والنصاریٰ اتخذوا قبور انبیائہم مساجد الخ ( حجۃ اللہ البالغۃ، ج: 2ص:126 کراتشی ) اور قبر کو پختہ کرنے اور اس پر عمارت بنانے اور اس پر بیٹھنے سے منع فرمایا اور یہ بھی فرمایا کہ قبروں کی طرف نماز نہ پڑھو کیونکہ یہ اس بات کا ذریعہ ہے کہ لوگ قبروں کی پرستش کرنے لگیں اور لوگ ان قبروں کی اتنی زیادہ تعظیم کرنے لگیں جس کی وہ مستحق نہیں ہیں۔ پس لوگ اپنے دین میں تحریف کرڈالیں جیسا کہ اہل کتاب نے کیا۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہود اور نصاریٰ پر خدا کی لعنت ہو۔ انہوں نے اپنے انبیاءکی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا۔ پس حق یہ ہے کہ توسط اختیار کرے۔ نہ تو مردہ کی اس قدر تعظیم کرے کہ وہ شرک ہوجائے اور نہ اس کی اہانت اور اس کے ساتھ عداوت کرے کہ مرنے کے بعد اب یہ سارے معاملات ختم کرکے مرنے والا اللہ کے حوالہ ہوچکا ہے۔