‌صحيح البخاري - حدیث 1329

كِتَابُ الجَنَائِزِ بَابُ الصَّلاَةِ عَلَى الجَنَائِزِ بِالْمُصَلَّى وَالمَسْجِدِ صحيح حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ حَدَّثَنَا أَبُو ضَمْرَةَ حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ الْيَهُودَ جَاءُوا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرَجُلٍ مِنْهُمْ وَامْرَأَةٍ زَنَيَا فَأَمَرَ بِهِمَا فَرُجِمَا قَرِيبًا مِنْ مَوْضِعِ الْجَنَائِزِ عِنْدَ الْمَسْجِدِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 1329

کتاب: جنازے کے احکام و مسائل باب: نماز جنازہ عیدگاہ میں اور مسجد میں ہم سے ابراہیم بن منذرنے بیان کیا‘ ان سے ابو ضمرہ نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا‘ ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ یہود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور میں اپنے ہم مذہب ایک مرد اور عورت کا جنہوں نے زنا کیا تھا‘ مقدمہ لے کر آئے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے مسجد کے نزدیک نماز جنازہ پڑھنے کی جگہ کے پاس انہیں سنگسار کر دیا گیا۔
تشریح : جنازہ کی نماز مسجد میں بلاکر اہت جائز ودرست ہے۔ جیسا کہ مندرجہ ذیل حدیث سے ظاہر ہے: عن عائشۃ انہا قالت لما توفی سعد بن ابی وقاص ادخلوا بہ المسجد حتی اصلی علیہ فانکروا ذلک علیہا فقالت واللہ لقد صلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابن بیضاءفی المسجد سہیل واخیہ رواہ مسلم وفی روایۃ ما صلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی سہیل بن البیضاءالافی جوف المسجد رواہ الجماعۃ الاالبخاری یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ سعد بن ابی وقاص کے جنازہ پر انہوں نے فرمایا کہ اسے مسجد میں داخل کرو یہاں تک کہ میں بھی اس پر نماز جنازہ ادا کروں۔ لوگوں نے اس پر کچھ انکار کیا تو آپ نے فرمایا کہ قسم اللہ کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیضاءکے دونوں بیٹوں سہیل اور اس کے بھائی پر نماز جنازہ مسجد ہی میں ادا کی تھی۔ اور ایک روایت میں ہے کہ سہیل بن بیضاءکی نمازجنازہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کے بیچوں بیچ ادا فرمائی تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ نماز جنازہ مسجد میں پڑھی جاسکتی ہے۔ حضرت ابوہریرہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہر دو کا جنازہ مسجد ہی میں ادا کیا گیا تھا۔ علامہ شوکانی فرماتے ہیں والحدیث یدل علی جواز ادخال المیت فی المسجد والصلوٰۃ علیہ وفیہ وبہ قال الشافعی واحمد واسحاق والجمہور یعنی یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ میت کو مسجد میں داخل کرنا اور وہاں اس کا جنازہ پڑھناد رست ہے۔ امام شافعی اور احمد اور اسحاق اور جمہور کا بھی یہی قول ہے۔ جو لوگ میت کے ناپاک ہونے کا خیال رکھتے ہیں ان کے نزدیک مسجد میں نہ میت کا لانا درست نہ وہاں نماز جنازہ جائز۔ مگر یہ خیال بالکل غلط ہے‘ مسلمان مردہ اور زندہ نجس نہیں ہوا کرتا۔ جیسا کہ حدیث میں صاف موجود ہے۔ ان المومن لا ینجس حیا ولامیتا بے شک مومن مردہ اور زندہ نجس نہیں ہوتا۔ یعنی نجاست حقیقی سے وہ دور ہوتا ہے۔ بنو بیضاءتین بھائی تھے۔ سہل وسہیل اور صفوان ان کی والدہ کو بطور وصف بیضاءکہا گیا۔ اس کا نام دعد تھا اور ان کے والد کا نام وہب بن ربیعہ قریشی فہری ہے۔ اس بحث کے آخر میں حضرت مولانا شیخ الحدیث عبیداللہ صاحب مبارک پوری فرماتے ہیں۔ والحق انہ یجوز الصلوٰۃ علی الجنائزفی المسجد من غیر کراہۃ والافضل الصلوٰۃ علیہا خارج المسجد لان اکثر صلواتہ صلی اللہ علیہ وسلم علی الجنائز کان فی المصلی الخ ( مرعاۃ ) یعنی حق یہی ہے کہ مسجد میں نماز جنازہ بلاکراہت درست ہے اور افضل یہ ہے کہ مسجد سے باہر پڑھی جائے کیونکہ اکثر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو عیدگاہ میں پڑھا ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اسلامی عدالت میں اگر کوئی غیر مسلم کا کوئی مقدمہ دائر ہو تو فیصلہ بہر حال اسلامی قانون کے تحت کیا جائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان یہودی زانیوں کے لیے سنگساری کا حکم اس لیے بھی صادر فرمایا کہ خود تورات میں بھی یہی حکم تھا جسے علماءیہود نے بدل دیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گویا ان ہی کی شریعت کے مطابق فیصلہ فرمایا۔ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) جنازہ کی نماز مسجد میں بلاکر اہت جائز ودرست ہے۔ جیسا کہ مندرجہ ذیل حدیث سے ظاہر ہے: عن عائشۃ انہا قالت لما توفی سعد بن ابی وقاص ادخلوا بہ المسجد حتی اصلی علیہ فانکروا ذلک علیہا فقالت واللہ لقد صلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابن بیضاءفی المسجد سہیل واخیہ رواہ مسلم وفی روایۃ ما صلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی سہیل بن البیضاءالافی جوف المسجد رواہ الجماعۃ الاالبخاری یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ سعد بن ابی وقاص کے جنازہ پر انہوں نے فرمایا کہ اسے مسجد میں داخل کرو یہاں تک کہ میں بھی اس پر نماز جنازہ ادا کروں۔ لوگوں نے اس پر کچھ انکار کیا تو آپ نے فرمایا کہ قسم اللہ کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیضاءکے دونوں بیٹوں سہیل اور اس کے بھائی پر نماز جنازہ مسجد ہی میں ادا کی تھی۔ اور ایک روایت میں ہے کہ سہیل بن بیضاءکی نمازجنازہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کے بیچوں بیچ ادا فرمائی تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ نماز جنازہ مسجد میں پڑھی جاسکتی ہے۔ حضرت ابوہریرہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہر دو کا جنازہ مسجد ہی میں ادا کیا گیا تھا۔ علامہ شوکانی فرماتے ہیں والحدیث یدل علی جواز ادخال المیت فی المسجد والصلوٰۃ علیہ وفیہ وبہ قال الشافعی واحمد واسحاق والجمہور یعنی یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ میت کو مسجد میں داخل کرنا اور وہاں اس کا جنازہ پڑھناد رست ہے۔ امام شافعی اور احمد اور اسحاق اور جمہور کا بھی یہی قول ہے۔ جو لوگ میت کے ناپاک ہونے کا خیال رکھتے ہیں ان کے نزدیک مسجد میں نہ میت کا لانا درست نہ وہاں نماز جنازہ جائز۔ مگر یہ خیال بالکل غلط ہے‘ مسلمان مردہ اور زندہ نجس نہیں ہوا کرتا۔ جیسا کہ حدیث میں صاف موجود ہے۔ ان المومن لا ینجس حیا ولامیتا بے شک مومن مردہ اور زندہ نجس نہیں ہوتا۔ یعنی نجاست حقیقی سے وہ دور ہوتا ہے۔ بنو بیضاءتین بھائی تھے۔ سہل وسہیل اور صفوان ان کی والدہ کو بطور وصف بیضاءکہا گیا۔ اس کا نام دعد تھا اور ان کے والد کا نام وہب بن ربیعہ قریشی فہری ہے۔ اس بحث کے آخر میں حضرت مولانا شیخ الحدیث عبیداللہ صاحب مبارک پوری فرماتے ہیں۔ والحق انہ یجوز الصلوٰۃ علی الجنائزفی المسجد من غیر کراہۃ والافضل الصلوٰۃ علیہا خارج المسجد لان اکثر صلواتہ صلی اللہ علیہ وسلم علی الجنائز کان فی المصلی الخ ( مرعاۃ ) یعنی حق یہی ہے کہ مسجد میں نماز جنازہ بلاکراہت درست ہے اور افضل یہ ہے کہ مسجد سے باہر پڑھی جائے کیونکہ اکثر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو عیدگاہ میں پڑھا ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اسلامی عدالت میں اگر کوئی غیر مسلم کا کوئی مقدمہ دائر ہو تو فیصلہ بہر حال اسلامی قانون کے تحت کیا جائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان یہودی زانیوں کے لیے سنگساری کا حکم اس لیے بھی صادر فرمایا کہ خود تورات میں بھی یہی حکم تھا جسے علماءیہود نے بدل دیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گویا ان ہی کی شریعت کے مطابق فیصلہ فرمایا۔ ( صلی اللہ علیہ وسلم )