‌صحيح البخاري - حدیث 1328

كِتَابُ الجَنَائِزِ بَابُ الصَّلاَةِ عَلَى الجَنَائِزِ بِالْمُصَلَّى وَالمَسْجِدِ صحيح وَعَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ المُسَيِّبِ: أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: «إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَفَّ بِهِمْ بِالْمُصَلَّى فَكَبَّرَ عَلَيْهِ أَرْبَعًا

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 1328

کتاب: جنازے کے احکام و مسائل باب: نماز جنازہ عیدگاہ میں اور مسجد میں اور ابن شہاب سے یوں بھی روایت ہے انہوں نے کہا کہ مجھ سے سعید بن مسیب نے بیان کیا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدگاہ میں صف بندی کرائی پھر ( نماز جنازہ کی ) چار تکبیریں کہیں۔
تشریح : امام نووی فرماتے ہیں قال ابن عبدالبر وانعقد الا جماع بعد ذلک علی اربع واجمع الفقہاءواہل الفتویٰ بالامصار علی اربع علی ماجاءفی احادیث الصحاح وماسوی ذلک عندہم شذو ذلایلتفت الیہ ( نووی ) یعنی ابن عبدالبرنے کہا کہ تمام فقہاءاور اہل فتویٰ کا چار تکبیروں پر اجماع ہوچکا ہے جیسا کہ احادیث صحاح میں آیا ہے اور جو اس کے خلاف ہے وہ نوادر میں داخل ہے جس کی طرف التفات نہیں کیا جاسکتا۔ شیخ الحدیث مولانا عبیداللہ مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ والراجح عندی انہ لا ینبغی ان یزاد علی اربع لان فیہ خروجا من الخلاف ولان ذلک ہوالغالب من فعلہ لکن الامام اذا کبر خمساً تابعہ الماموم لان ثبوت الخمس لامردلہ من حیث الروایۃ العمل الخ ( مرعاۃ‘ ج:2ص:477 ) یعنی میرے نزدیک راجح یہی ہے کہ چار تکبیروں سے زیادہ نہ ہوں۔ اختلاف سے بچنے کا یہی راستہ ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے اکثر یہی ثابت ہے۔ لیکن اگر امام پانچ تکبیریں کہے تو مقتدیوں کو اس کی پیروی کرنی چاہیے۔ اس لیے کہ روایت اور عمل کے لحاظ سے پانچ کا بھی ثبوت موجود ہے جس سے انکار کی گنجائش نہیں ہے۔ امام نووی فرماتے ہیں قال ابن عبدالبر وانعقد الا جماع بعد ذلک علی اربع واجمع الفقہاءواہل الفتویٰ بالامصار علی اربع علی ماجاءفی احادیث الصحاح وماسوی ذلک عندہم شذو ذلایلتفت الیہ ( نووی ) یعنی ابن عبدالبرنے کہا کہ تمام فقہاءاور اہل فتویٰ کا چار تکبیروں پر اجماع ہوچکا ہے جیسا کہ احادیث صحاح میں آیا ہے اور جو اس کے خلاف ہے وہ نوادر میں داخل ہے جس کی طرف التفات نہیں کیا جاسکتا۔ شیخ الحدیث مولانا عبیداللہ مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ والراجح عندی انہ لا ینبغی ان یزاد علی اربع لان فیہ خروجا من الخلاف ولان ذلک ہوالغالب من فعلہ لکن الامام اذا کبر خمساً تابعہ الماموم لان ثبوت الخمس لامردلہ من حیث الروایۃ العمل الخ ( مرعاۃ‘ ج:2ص:477 ) یعنی میرے نزدیک راجح یہی ہے کہ چار تکبیروں سے زیادہ نہ ہوں۔ اختلاف سے بچنے کا یہی راستہ ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے اکثر یہی ثابت ہے۔ لیکن اگر امام پانچ تکبیریں کہے تو مقتدیوں کو اس کی پیروی کرنی چاہیے۔ اس لیے کہ روایت اور عمل کے لحاظ سے پانچ کا بھی ثبوت موجود ہے جس سے انکار کی گنجائش نہیں ہے۔