‌صحيح البخاري - حدیث 1324

كِتَابُ الجَنَائِزِ بَابُ فَضْلِ اتِّبَاعِ الجَنَائِزِ صحيح - فَصَدَّقَتْ يَعْنِي عَائِشَةَ أَبَا هُرَيْرَةَ، وَقَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُهُ فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: «لَقَدْ فَرَّطْنَا فِي قَرَارِيطَ كَثِيرَةٍ» فَرَّطْتُ: ضَيَّعْتُ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 1324

کتاب: جنازے کے احکام و مسائل باب: جنازہ کے ساتھ جانے کی فضیلت پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے بھی تصدیق کی اور فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ارشاد خود سنا ہے۔ اس پر ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ پھر تو ہم نے بہت سے قیراطوں کا نقصان اٹھایا۔ ( سورہ زمر میں جو لفظ ) فرطت آیا ہے اس کے یہی معنی ہیں میں نے ضائع کیا۔
تشریح : حضرت امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ کی عادت ہے کہ قرآن کی آیتوں میں جو لفظ وارد ہوئے ہیں اگر حدیث میں کوئی وہی لفظ آجاتا ہے تو آپ اس کے ساتھ ساتھ قرآن کے لفظ کی بھی تفسیر کردیتے ہیں۔ یہاں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے کلام میں فرطت کا لفظ آیا اور قرآن میں بھی فَرَّطتُ فِی جَنبِ اللّٰہِ ( الزمر: 56 ) آیا ہے تو اس کی بھی تفسیر کردی یعنی میں نے اللہ کا حکم کچھ ضائع کیا۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی نسبت کہا‘ انہوں نے بہت حدیثیں بیان کیں۔ اس سے یہ مطلب نہیں تھا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ جھوٹے ہیں۔ بلکہ ان کو یہ شبہ رہا کہ شاید ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بھول گئے ہوں یا حدیث کا مطلب اور کچھ ہو وہ نہ سمجھے ہوں۔ جب حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بھی ان کی شہادت دی تو ان کو پورا یقین آیا اور انہوں نے افسوس سے کہا کہ ہمارے بہت سے قیراط اب تک ضائع ہوئے۔ حضرت امام کا مقصد باب اس شخص کی فضیلت بیان کرنا ہے جو جنازے کے ساتھ جائے‘ اسے ایک قیراط کا ثواب ملے گا۔ قیراط ایک بڑا وزن مثل احد پہاڑ کے مراد ہے اور جو شخص دفن ہونے تک ساتھ رہے اسے دو قیراط برابر ثواب ملے گا۔ حضرت امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ کی عادت ہے کہ قرآن کی آیتوں میں جو لفظ وارد ہوئے ہیں اگر حدیث میں کوئی وہی لفظ آجاتا ہے تو آپ اس کے ساتھ ساتھ قرآن کے لفظ کی بھی تفسیر کردیتے ہیں۔ یہاں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے کلام میں فرطت کا لفظ آیا اور قرآن میں بھی فَرَّطتُ فِی جَنبِ اللّٰہِ ( الزمر: 56 ) آیا ہے تو اس کی بھی تفسیر کردی یعنی میں نے اللہ کا حکم کچھ ضائع کیا۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی نسبت کہا‘ انہوں نے بہت حدیثیں بیان کیں۔ اس سے یہ مطلب نہیں تھا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ جھوٹے ہیں۔ بلکہ ان کو یہ شبہ رہا کہ شاید ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بھول گئے ہوں یا حدیث کا مطلب اور کچھ ہو وہ نہ سمجھے ہوں۔ جب حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بھی ان کی شہادت دی تو ان کو پورا یقین آیا اور انہوں نے افسوس سے کہا کہ ہمارے بہت سے قیراط اب تک ضائع ہوئے۔ حضرت امام کا مقصد باب اس شخص کی فضیلت بیان کرنا ہے جو جنازے کے ساتھ جائے‘ اسے ایک قیراط کا ثواب ملے گا۔ قیراط ایک بڑا وزن مثل احد پہاڑ کے مراد ہے اور جو شخص دفن ہونے تک ساتھ رہے اسے دو قیراط برابر ثواب ملے گا۔