كِتَابُ الجَنَائِزِ بَابُ الصُّفُوفِ عَلَى الجِنَازَةِ صحيح حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ أَنَّ ابْنَ جُرَيْجٍ أَخْبَرَهُمْ قَالَ أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَقُولُ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ تُوُفِّيَ الْيَوْمَ رَجُلٌ صَالِحٌ مِنْ الْحَبَشِ فَهَلُمَّ فَصَلُّوا عَلَيْهِ قَالَ فَصَفَفْنَا فَصَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِ وَنَحْنُ مَعَهُ صُفُوفٌ قَالَ أَبُو الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ كُنْتُ فِي الصَّفِّ الثَّانِي
کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
باب: جنازہ کی نماز میں صفیں باندھنا
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم کو ہشام بن یوسف نے خبر دی کہ انہیں ابن جریج نے خبر دی ‘ انہوں نے بیان کیا کہ مجھے عطاءبن ابی رباح نے خبر دی ‘ انہوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آج حبش کے ایک مرد صالح ( نجاشی حبش کے بادشاہ ) کا انتقال ہوگیا ہے۔ آؤ ان کی نماز جنازہ پڑھو۔ جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر ہم نے صف بندی کرلی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔ ہم صف باندھے کھڑے تھے۔ ابوالزبیر نے جابر رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے نقل کیا کہ میں دوسری صف میں تھا۔
تشریح :
ان سب حدیثوں سے میت غائب پر نماز جنازہ غائبانہ پڑھنا ثابت ہوا۔ امام شافعی رحمہ اللہ اور امام احمد رحمہ اللہ اور اکثر سلف کا یہی قول ہے۔ علامہ ابن حزم کہتے ہیں کہ کسی بھی صحابی سے اس کی ممانعت ثابت نہیں اور قیاس بھی اسی کو مقتضی ہے کہ جنازے کی نماز میں دعا کرنا ہے اور دعا کرنے میں یہ ضروری نہیں کہ جس کے لیے دعا کی جائے وہ ضرور حاضر بھی ہو۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شاہ حبش نجاشی کا جنازہ غائبانہ ادا فرمایا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ نماز جنازہ غائبانہ درست ہے مگر اس بارے میں علمائے احناف نے بہت کچھ تاویلات سے کام کیا ہے۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے زمین کا پردہ ہٹاکر اللہ نے نجاشی کا جنازہ ظاہر کردیا تھا۔ کچھ کہتے ہیں کہ یہ خصوصیات نبوی سے ہے۔ کچھ نے کہا کہ یہ خاص نجاشی کے لیے تھا۔ بہر حال یہ تاویلات دورازکار ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نجاشی کے لیے پھر معاویہ بن معاویہ مزنی کے لیے‘ نماز جنازہ غائبانہ ثابت ہے۔
حضرت مولانا عبیداللہ صاحب شیخ الحدیث مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: واجیب عن ذلک بان الاصل عدم الخصوصیۃ ولوفتح باب ہذا الخصوص لانسد کثیر من احکام الشرع قال الخطابی زعم ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان مخصوصا بہذا الفعل فاسد لان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا فعل شیئا من افعال الشریعۃ کان علینا اتباعہ والا یتسابہ والتخصیص لا یعلم الا بدلیل ومما یبین ذلک انہ صلی اللہ علیہ وسلم خرج بالناس الی الصلٰوۃ فصف بہم وصلوا معہ فعلم ان ہذا التاویل فاسد وقال ابن قدامہ نقتدی بالنبی صلی اللہ علیہ وسلم مالم یثبت ما یقتضی اختصاصہ ( مرعاۃ ) یعنی نجاشی کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز جنازہ غائبانہ کو مخصوص کرنے کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ اصل میں عدم خصوصیت ہے اور اگر خواہ مخواہ ایسے خصوص کا دروازہ کھولا جائے گا‘ تو بہت سے احکام شریعت یہی کہہ کر مسدود کردئیے جائیں گے کہ یہ خصوصیات نبوی میں سے ہیں۔ امام خطابی نے کہا کہ یہ گمان کہ نماز جنازہ غائبانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مخصوص تھی بالکل فاسد ہے۔ اس لیے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوئی کام کریں تو اس کا اتباع ہم پر واجب ہے۔ تخصیص کے لیے کوئی کھلی دلیل ہونی ضروری ہے۔ یہاں تو صاف بیان کیا گیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو ہمراہ لے کر نجاشی کی نماز پڑھانے کے لیے نکلے۔ صف بندی ہوئی اور آپ نے نماز پڑھائی۔ ظاہر ہوا کہ یہ تاویل فاسد ہے۔ ابن قدامہ نے کہا کہ جب تک کسی امر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت صحیح دلیل سے ثابت نہ ہو ہم اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا کریں گے۔
کچھ روایات جن سے کچھ اختصاص پر روشنی پڑسکتی ہے مروی ہیں مگر وہ سب ضعیف اور ناقابل استناد ہیں۔ علامہ ابن حجرنے فرمایا کہ ان پر توجہ نہیں دی جاسکتی۔ اور واقدی کی یہ روایت کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نجاشی کے جنازہ اور زمین کا درمیانی پردہ ہٹا دیا گیا تھا بغیر سند کے ہے جو ہرگز استدلال کے قابل نہیں ہے۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے شرح سفر السعادت میں ایسا ہی لکھا ہے۔
ان سب حدیثوں سے میت غائب پر نماز جنازہ غائبانہ پڑھنا ثابت ہوا۔ امام شافعی رحمہ اللہ اور امام احمد رحمہ اللہ اور اکثر سلف کا یہی قول ہے۔ علامہ ابن حزم کہتے ہیں کہ کسی بھی صحابی سے اس کی ممانعت ثابت نہیں اور قیاس بھی اسی کو مقتضی ہے کہ جنازے کی نماز میں دعا کرنا ہے اور دعا کرنے میں یہ ضروری نہیں کہ جس کے لیے دعا کی جائے وہ ضرور حاضر بھی ہو۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شاہ حبش نجاشی کا جنازہ غائبانہ ادا فرمایا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ نماز جنازہ غائبانہ درست ہے مگر اس بارے میں علمائے احناف نے بہت کچھ تاویلات سے کام کیا ہے۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے زمین کا پردہ ہٹاکر اللہ نے نجاشی کا جنازہ ظاہر کردیا تھا۔ کچھ کہتے ہیں کہ یہ خصوصیات نبوی سے ہے۔ کچھ نے کہا کہ یہ خاص نجاشی کے لیے تھا۔ بہر حال یہ تاویلات دورازکار ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نجاشی کے لیے پھر معاویہ بن معاویہ مزنی کے لیے‘ نماز جنازہ غائبانہ ثابت ہے۔
حضرت مولانا عبیداللہ صاحب شیخ الحدیث مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: واجیب عن ذلک بان الاصل عدم الخصوصیۃ ولوفتح باب ہذا الخصوص لانسد کثیر من احکام الشرع قال الخطابی زعم ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان مخصوصا بہذا الفعل فاسد لان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا فعل شیئا من افعال الشریعۃ کان علینا اتباعہ والا یتسابہ والتخصیص لا یعلم الا بدلیل ومما یبین ذلک انہ صلی اللہ علیہ وسلم خرج بالناس الی الصلٰوۃ فصف بہم وصلوا معہ فعلم ان ہذا التاویل فاسد وقال ابن قدامہ نقتدی بالنبی صلی اللہ علیہ وسلم مالم یثبت ما یقتضی اختصاصہ ( مرعاۃ ) یعنی نجاشی کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز جنازہ غائبانہ کو مخصوص کرنے کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ اصل میں عدم خصوصیت ہے اور اگر خواہ مخواہ ایسے خصوص کا دروازہ کھولا جائے گا‘ تو بہت سے احکام شریعت یہی کہہ کر مسدود کردئیے جائیں گے کہ یہ خصوصیات نبوی میں سے ہیں۔ امام خطابی نے کہا کہ یہ گمان کہ نماز جنازہ غائبانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مخصوص تھی بالکل فاسد ہے۔ اس لیے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوئی کام کریں تو اس کا اتباع ہم پر واجب ہے۔ تخصیص کے لیے کوئی کھلی دلیل ہونی ضروری ہے۔ یہاں تو صاف بیان کیا گیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو ہمراہ لے کر نجاشی کی نماز پڑھانے کے لیے نکلے۔ صف بندی ہوئی اور آپ نے نماز پڑھائی۔ ظاہر ہوا کہ یہ تاویل فاسد ہے۔ ابن قدامہ نے کہا کہ جب تک کسی امر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت صحیح دلیل سے ثابت نہ ہو ہم اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا کریں گے۔
کچھ روایات جن سے کچھ اختصاص پر روشنی پڑسکتی ہے مروی ہیں مگر وہ سب ضعیف اور ناقابل استناد ہیں۔ علامہ ابن حجرنے فرمایا کہ ان پر توجہ نہیں دی جاسکتی۔ اور واقدی کی یہ روایت کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نجاشی کے جنازہ اور زمین کا درمیانی پردہ ہٹا دیا گیا تھا بغیر سند کے ہے جو ہرگز استدلال کے قابل نہیں ہے۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے شرح سفر السعادت میں ایسا ہی لکھا ہے۔