‌صحيح البخاري - حدیث 1311

كِتَابُ الجَنَائِزِ بَابُ مَنْ قَامَ لِجَنَازَةِ يَهُودِيٍّ صحيح حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ فَضَالَةَ حَدَّثَنَا هِشَامٌ عَنْ يَحْيَى عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ مِقْسَمٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ مَرَّ بِنَا جَنَازَةٌ فَقَامَ لَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقُمْنَا بِهِ فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهَا جِنَازَةُ يَهُودِيٍّ قَالَ إِذَا رَأَيْتُمْ الْجِنَازَةَ فَقُومُوا

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 1311

کتاب: جنازے کے احکام و مسائل باب: جو یہودی کا جنازہ دیکھ کر کھڑا ہوگیا ہم سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے ہشام نے بیان کیا‘ ان سے یحیٰی بن ابی کثیر نے بیان کیا‘ ان سے عبیداللہ بن مقسم نے اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے کہ ہمارے سامنے سے ایک جنازہ گزرا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوگئے اور ہم بھی کھڑے ہوگئے۔ پھر ہم نے کہا کہ یا رسول اللہ! یہ تو یہودی کا جنازہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم لوگ جنازہ دیکھو تو کھڑے ہوجایا کرو۔
تشریح : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہودی کے جنازے کے لیے بھی کھڑے ہوجانا ظاہر کررہا ہے کہ آپ کے قلب مبارک میں محض انسانیت کے رشتہ کی بناپر ہر انسان سے کس قدر محبت تھی۔ یہودی کے جنازہ کو دیکھ کر کھڑے ہونے کی کئی وجوہ بیان کی گئی ہیں۔ آئندہ حدیث میں بھی کچھ ایسا ہی ذکر ہے۔ وہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس سوال کا جواب فرمایا۔ الیست نفسا یعنی جان کے معاملہ میں مسلمان اور غیر مسلمان برابر ہیں۔ زندگی اور موت ہردو پر وارد ہوتی ہیں۔ حضرت جابر کی روایت میں مزید تفصیل موجود ہے۔ مرت جنازۃ فقام لہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وقمنا معہ فقلنا یا رسول اللہ انہا یہودیۃ فقال ان الموت فزع فاذا رایتم الجنازۃ فقوموا متفق علیہ یعنی ایک جنازہ گزرا جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی اقتدا میں ہم سب کھڑے ہوگئے۔ بعد میں ہم نے کہا کہ حضور یہ ایک یہودیہ کا جنازہ تھا۔ آپ نے فرمایا کہ کچھ بھی ہو بے شک موت بہت ہی گھبراہٹ میں ڈالنے والی چیز ہے۔ موت کسی کی بھی ہو اسے دیکھ کر گھبراہٹ ہونی چاہیے پس تم بھی کوئی جنازہ دیکھو کھڑے ہوجایا کرو۔ نسائی اور حاکم میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ انما قمنا للملئکۃ ہم فرشتوں کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوتے ہیں اور احمد میں بھی حدیث ابوموسیٰ سے ایسی ہی روایت موجود ہے۔ پس خلاصۃ الکلام یہ کہ جنازہ کو دیکھ کر بلا امتیاز مذہب عبرت حاصل کرنے کے لیے‘ موت کو یاد کرنے کے لیے‘ فرشتوں کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوجانا چاہیے۔ حدیث اور باب میں مطابقت ظاہر ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہودی کے جنازے کے لیے بھی کھڑے ہوجانا ظاہر کررہا ہے کہ آپ کے قلب مبارک میں محض انسانیت کے رشتہ کی بناپر ہر انسان سے کس قدر محبت تھی۔ یہودی کے جنازہ کو دیکھ کر کھڑے ہونے کی کئی وجوہ بیان کی گئی ہیں۔ آئندہ حدیث میں بھی کچھ ایسا ہی ذکر ہے۔ وہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس سوال کا جواب فرمایا۔ الیست نفسا یعنی جان کے معاملہ میں مسلمان اور غیر مسلمان برابر ہیں۔ زندگی اور موت ہردو پر وارد ہوتی ہیں۔ حضرت جابر کی روایت میں مزید تفصیل موجود ہے۔ مرت جنازۃ فقام لہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وقمنا معہ فقلنا یا رسول اللہ انہا یہودیۃ فقال ان الموت فزع فاذا رایتم الجنازۃ فقوموا متفق علیہ یعنی ایک جنازہ گزرا جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی اقتدا میں ہم سب کھڑے ہوگئے۔ بعد میں ہم نے کہا کہ حضور یہ ایک یہودیہ کا جنازہ تھا۔ آپ نے فرمایا کہ کچھ بھی ہو بے شک موت بہت ہی گھبراہٹ میں ڈالنے والی چیز ہے۔ موت کسی کی بھی ہو اسے دیکھ کر گھبراہٹ ہونی چاہیے پس تم بھی کوئی جنازہ دیکھو کھڑے ہوجایا کرو۔ نسائی اور حاکم میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ انما قمنا للملئکۃ ہم فرشتوں کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوتے ہیں اور احمد میں بھی حدیث ابوموسیٰ سے ایسی ہی روایت موجود ہے۔ پس خلاصۃ الکلام یہ کہ جنازہ کو دیکھ کر بلا امتیاز مذہب عبرت حاصل کرنے کے لیے‘ موت کو یاد کرنے کے لیے‘ فرشتوں کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوجانا چاہیے۔ حدیث اور باب میں مطابقت ظاہر ہے۔